معلوم نہیں سندھ کی سرزمین میں ایسا کیا ہے کہ یہاں سازش کا بیج بہت جلد جڑ پکڑ لیتا ہے۔ سازش کا وہ پودا جن ہواؤں میں سانس لیتا ہے، ان ہواؤں میں نفرت، تعصب اور تشدد کا زہر گھل جاتا ہے۔ پھر سیاست کا سوکھا جنگل کسی اتفاقی چنگاری کا راستہ دیکھتا ہے۔ سیاست کے سوکھے جنگل کو زیادہ انتظار کرنا نہیں پڑتا۔ صرف ایک چنگاری کافی ہوتی ہے اس جنگل کو جلانے کے لیے۔ نفرت اور تعصب کی اس آگ کو قابو کرنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ آگ کافی وقت تک جلتی رہتی ہے۔ جب تک وہ آگ جلتی ہے تب تک انسانوں کی آنکھوں میں شعلے رقص کرتے نظر آتے ہیں اور جب بہت کچھ جل جاتا ہے، تب کافی وقت تک پچھتاوے کا موسم ٹھہرا رہتا ہے۔ کیا ہم نے سندھ کی دھرتی پر اس لیے جنم لیا ہے کہ ہم سازش کو کامیاب ہوتا دیکھیں؟ کیا ہمیں آنکھیں آسمان کی طرف اڑتے ہوئے شعلوں کا منظر دیکھنے اور رونے کے لیے عطا ہوئی ہیں؟ کیا یہ ہاتھ صرف اس لیے ملے ہیں کہ ہم ان کی انگلیوں میں قلم پکڑ کر یہ الفاظ لکھیں کہ ’’ہماری آنکھوں کے آنسو سازش کی اس آگ کو نہیں بجھا سکتے!!‘‘
اگر ہم سازش کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں تو ہمیں اس وقت ہی ہوشیار ہو جانا چاہئے تھا، جب ایک شخص نے دوسرے شخص پر گولیاں چلائیں اور اس پر ڈاکو ہونے کا الزام لگایا۔ کیا ہوا اگر مارنے والا پٹھان اور مرنے والا سندھی تھا؟ کیا پٹھان پٹھانوں کو نہیں مارتے؟ کیا سندھی سندھیوں کو قتل نہیں کرتے؟ پھر قتل کرنے والے کی نسل اور زبان کو تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ اور قتل ہونے والے کے خون کا تعلق مخصوص کلچر اور تاریخ سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟ کیا ارشاد رانجھانی اور رحیم شاہ کا معاملہ سیاسی نوعیت کا تھا؟ اگر نہیں تو پھر اس پر سیاست کیوں کی گئی؟ جب بھی ایسے واقعات پر سیاست کی جاتی ہے، تب نسلی فسادات کی سازش جنم لیتی ہے۔
فساد کبھی اچھا نہیں ہوتا، مگر نسلی فساد تو سب سے برا ہوتا ہے۔ بدترین فساد ہوتا ہے نسلی فساد۔ وہ فساد جو دیکھنے اور سننے والی آبادی کو اندھا اور بہرا بنا دیتا ہے۔ بے گناہ لوگ تشدد کی آگ میں جلتے ہیں، مگر ان کی طرف احساس سے بھری ہوئی آنکھوں سے کوئی نہیں دیکھتا۔ جب تشدد کے باعث معصوم بچے چلاتے ہیں اور ان کی چیخیں آسمان سے ٹکراتی ہیں، تب بھی نسلی سوچ کے شکار لوگ ان کی آواز نہیں سن سکتے۔ نسلی فساد کی سب سے بری بات یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک معاشرے کو خانہ جنگی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ خانہ جنگی اس حوالے سے خطرناک ہوتی ہے کہ اس میں دشمن کا پتہ نہیں چلتا۔ کسی زبان اور کسی رنگ و نسل سے تعلق رکھنا جرم بن جاتا ہے۔ اس جرم کے باعث لوگوں کو لوٹا جاتا ہے۔ ان کو قتل کیا جاتا ہے۔ کیا کسی زبان اور کسی نسل سے تعلق ہونا کوئی جرم ہے؟
اگر نہیں تو پھر ارشاد رانجھانی کے قتل کے بعد گزشتہ روز سندھ کے چھوٹے مگر مشہور شہر نوڈیرو میں ان تینوں پٹھانوں کو کیوں قتل کیا گیا، جن کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کراچی میں کسی رحیم شاہ نے کسی ارشاد پر ڈاکو ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے قتل کیا ہے۔ وہ برسوں سے سندھ کے دیہی علاقوں کی گلیوں میں پھرتے ہیں اور سردی میں کمبل اور گرمی میں جگ اور جوسر بیچتے ہیں۔ وہ راستوں پر پھرنے والے مزدور جن کے پیروں پر گاؤں گاؤں کی مٹی ہوتی ہے۔ وہ صدائیں لگاتے جاتے ہیں کہ ’’کمبل والا، چٹائی والا، ڈنر سیٹ والا‘‘ اپنی دکان اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلنے والے یہ لوگ جب نوجوان ہوتے ہیں، تب بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔ ان کا لمبا قد، ان کی نیلی آنکھیں، ان بکھرے ہوئے بڑے بال اور لمبے قدموں والی ان کی چال بہت پرکشش ہوتی ہے، مگر سندھ کی تاریخ میں آج تک کسی پٹھان مسافر پر کاروکاری کا الزام نہیں لگا۔ کبھی کسی پٹھان نے پنجاب یا سندھ کی کسی عورت کو اپنے ساتھ فرار ہونے کا موقعہ فراہم نہیں کیا۔ وہ لوگ جو اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے دور رہتے ہیں، مگر وہ کبھی کسی کی بیوی اور بیٹی کو میلی نظر سے نہیں دیکھتے۔ اس لیے پردے کے سخت پابند لوگ بھی بڑے دروازے کے اندر بیٹھے ہوئے پٹھان پر اعتراض نہیں کرتے۔ وہ پٹھان جس کو دیہی سندھ کی چنچل عورتیں بہت تنگ کرتی ہیں۔ وہ ریشمی کپڑے کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’لالا! اب پکائی چھوڑو۔ بس چار سو روپیوں میں یہ سوٹ دیدو۔‘‘ اور پٹھان ریشمی سوٹ کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہتا ہے: ’’چار سو روپیوں میں وارا نہیں کھاتا میرا باجی۔ چھوڑو سوٹ کو چھوڑو۔‘‘ ایسی چلتی پھرتی دکانوں والے غریب دکاندر آپ کو ان دیہاتوں میں بھی ملیں گے، جن دیہاتوں میں پولیس بھی نہیں جاتی۔ کیوں کہ وہاں مخصوص علاقے میں ڈاکو راج بھی ہوتا ہے۔ اس ڈاکو راج میں بھی یہ مزدور ادھار پر کپڑا بیچ کر آتے ہیں اور پھر مقررہ وقت پر ادھار وصولنے واپس آتے ہیں۔ سندھ کے چھوٹے بڑے گاؤں اور شہروں میں کبھی پرانی سی سائیکل اور کبھی پیدل چلنے والے ان پٹھانوں پر کبھی غیر اخلاقی الزام نہیں لگا اور انہوں نے بھی کبھی کسی مقامی شخص پر لوٹنے یا مارنے دھمکانے کی تہمت عائد نہیں کی۔ وہ بہت غریب اور بے حد بااصول ہوتے ہیں۔ سندھ کے لوگ ان کی دل سے عزت کرتے ہیں۔ مگر جب معاشرے میں تعصب اور لسانیت کا فسادی زہر پھیل جاتا ہے، تب ایسا بھی ہوتا ہے کہ نوڈیرو شہر کے ایک روڈ پر چنگچی میں سفر کرنے والے تین پٹھان مزدوروں کو گولیاں کا نشانہ بنا کر انہیں قتل کیا گیا۔ مگر کس جرم میں؟
یہ سوال ان سندھیوں کو بھی احساس جرم کا شکار کر رہا ہے، جو کل تک رحیم شاہ اور ارشاد رانجھانی کو پٹھان اور سندھی کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ ان سب کو سندھ کے باشعور لوگ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’اپنے احتجاج میں احتیاط سے کام لیں۔ کہیں آپ کا احتجاج لسانی اور نسلی فسادات کا باعث نہ بن جائے۔‘‘ کل جب سندھ کے سوشل میڈیا پر نوڈیرو میں قتل ہونے والے تین غریب پٹھانوں کے بارے میں خبر اَپ لوڈ ہوئی تو وہ سب سکتے میں آ گئے، جو کل تک رحیم شاہ کے خلاف جذبات سے بھری ہوئی باتیں لکھ رہے تھے۔ ان کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ یہ صورت حال کوئی اور رنگ میں ڈھل سکتی ہے۔ ان کو بالکل پتہ نہیں تھا کہ ان کا احتجاج نسلی اور لسانی فسادات کی آگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ کل تک انہیں جو یہ بات سمجھا رہا تھا، تو وہ اس کے بھی خلاف بول رہے تھے، مگر اب وہ خاموش ہیں۔ وہ خوف زدہ نہیں۔ وہ شدید ترین احساس جرم کا شکار ہیں۔ ان کو محسوس ہو رہا ہے کہ نوڈیرو میں قتل ہونے والے تین پٹھانوں کے خون کے چھینٹے ان کے دامن پر بھی ہیں، جو کراچی اور بیرون ملک رحیم شاہ اور ارشاد رانجھانی کے معاملے کو سندھی پٹھان کے تناظر میں دیکھ رہے تھے۔
اب وہ سب رحیم شاہ کو بھول گئے ہیں اور وہ نوڈیرو میں قتل ہونے والے تین غریب پٹھانوں کے بارے میں غمگین الفاظ لکھنے کے ساتھ ساتھ اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کر رہے ہیں۔ سندھ کے سوشل میڈیا پر ان تین پٹھانوں کے لیے ماتم ہو رہا ہے۔ اب ان کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ احتجاج کرتے وقت کس قدر احتیاط کرنا ضروری ہے۔
اس وقت سندھ کے سوشل میڈیا پر وہ سب لوگ سرگرم ہیں، جو کبھی نظریاتی جماعتوں میں ہوا کرتے تھے۔ اب سوشل میڈیا نے انہیں دل کی بھڑاس نکالنے کے ساتھ ساتھ اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کا موقعہ بھی فراہم کیا ہے۔ وہ سب بہت سمجھدار ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ ایسی صورت حال کا فائدہ زیادہ تر دشمن ملک کی قوتیں اٹھاتی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ پورے پاکستان میں تشدد اور بدامنی کی آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کو استعمال کرکے ’’را‘‘ نے کبھی ’’مہاجر پٹھان‘‘ فسادات کروائے اور کبھی ’’سندھی مہاجر‘‘ فسادات کی آگ جلائی۔ اس وقت ایم کیو ایم کی سازشی قوت ختم ہو چکی ہے۔ اس لیے بھارت کو نئے ایجنٹوں کی ضرورت ہے، جن کی معرفت کراچی اور اندرون سندھ میں ’’سندھی پٹھان‘‘ فسادات کروائے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ سندھی اور پٹھانوں کا ٹکراؤ سندھ کے ان حکمرانوں کے حق میں ہے، جو اب تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ مہاجروں کے خلاف ماحول کو تیار کرکے ’’سندھ کارڈ‘‘ چارج کیا ہے۔ مگر اس بار ممکن ہے کہ وہ ’’سندھ کارڈ‘‘ کو ’’سندھی پٹھان‘‘ تضاد پیدا کرکے کچھ بھاری بنائے۔ مگر سندھ کے حکمرانوں سے زیادہ ہند کے حکمرانوں کا مفاد اس میں ہے کہ سندھ میں ’’سندھی پٹھان‘‘ ٹکراؤ کے بہانے تراشے جائیں۔ سندھ میں ایسی کوشش پہلی بھی ہوئی ہے، مگر سندھیوں اور پٹھانوں نے ہمیشہ مل کر اس سازش کو ناکام بنایا ہے۔ اس بار بھی اس سازش کو ناکام بنانے کے سلسلے میں سندھیوں اور پٹھانوں کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ سندھیوں کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کی دھرتی کے حوالے سے پٹھانوں کی آنکھ میلی نہیں ہے۔ پٹھان کبھی بھی ڈپلومیسی والا ڈرامہ نہیں کرتا۔ وہ یا تو سندھ کی دھرتی پر اپنے آپ کو مہمان کہتا ہے یا اس دھرتی کا حصہ ہوکر اپنے آپ کو اس طرح سندھی بنا لیتا ہے، جس طرح شکارپور سے لے کر کراچی تک لاکھوں سندھی پٹھانوں کے نام کے آگے ’’آغا‘‘ اور پیچھے ’’خان‘‘ لکھا ہوا ہوتا ہے، مگر وہ نہ صرف سندھی میں سوچتے ہیں، بلکہ سندھی میں محسوس بھی کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف سندھی زبان اور ادب پر تحقیق کرتے ہیں، بلکہ آغا سلیم کی طرح ایسا ادب تخلیق کرتے ہیں، جس ادب سے ایسی خوشبو آتی ہے، جیسی خوشبو سکھر کے قریب تاریخی شہر اروڑ پر پڑنے والی بارش کے بعد ایک سوندھی سی مہک ہواؤں میں بکھر جاتی ہے۔ جب تک سندھ کے ادب میں وہ خوشبو ہے، تب تک کوئی سازش ’’سندھی پٹھان‘‘ لڑائی نہیں کروا سکتی۔ یہ اچھی بات ہے کہ سندھ میں پٹھانوں اور سندھیوں کے درمیان پیار اور اعتبار کا پرانا رشتہ ہے، مگر یہ بات تو اچھی نہیں کہ سندھ کی دھرتی میں ہر سازش کا بیج فوری طور پر جکڑ پکڑ لیتا ہے اور اپنی نشونما کے لیے مظلوموں کے خون کا تقاضا کرتا ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post