نفع بخش سودا

0

حضرت صہیبؓ رومی ان خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں سے ہیں جن کاشمار سابقون اولون (ابتدا میں ایمان لانے والوں) میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مکہ آکر اپنا کاروبار شروع کیا۔ مکہ کی منڈی میں ملک التجارکے لقب سے پکارے جاتے تھے۔ حضور اکرمؐ نے جب تبلیغ اسلام کا آغاز کیا تو ابتدائی برسوں میں ہی حضرت صہیبؓ اس دولت سے مالا مال ہوگئے۔ حضور اکرمؐ کے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد تمام مسلمان ایک ایک کر کے مدینہ جانے لگے۔
حضرت صہیبؓ کا کاروبار بہت پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے بھی اپنے کاروبار کو سمیٹنا شروع کردیا اور چند منتخب اشیاء ایک صندوق میں بند کیں اور عازم مدینہ ہوئے۔ حاکم اور بیہقی نے حضرت صہیبؓ سے روایت کی ہے کہ ایک روز رسول اکرمؐ نے انہیں وہ مقام دکھایا تھا جو ان کی ہجرت گاہ ہوگا۔ ایک شوریلا سا میدان جس کے دونوں طرف جلے ہوئے پتھر تھے یا تو وہ حجر تھا یا مدینہ۔
چنانچہ جب صہیب رومیؓ نے مدینہ کا عزم کیا تو قریش کے نوجوانوں نے انہیں گھیر لیا اور کہا کہ صہیب جب تم یہاں آئے تھے تو مفلس و قلاش تھے۔ یہ ساری دولت تم نے یہاں سے کمائی ہے۔ اگر تم یہاں رہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، مگر ہم تمہیں یہ ساری دولت یثرب نہیں لے جانے دیں گے۔ حضرت صہیبؓ نے اپنے دل سے پوچھا بتائو تمہارا کیا فیصلہ ہے؟ ایک طرف مال و دولت کے انبار ہیں اور دوسری طرف حضور اکرمؐ کی بارگاہ میں حاضری، ایک چیز ان میں سے پسند کرلو۔ ایمان سے پر دل نے حضور اکرمؐ کا انتخاب کیا۔ چنانچہ حضرت صہیبؓ رومی نے اونٹ پر لدا ہوا قیمتی سامان ان کے حوالے کیا اور پیدل یثرب کی طرف روانہ ہوئے۔
دس گیارہ دن میں یثرب پہنچے۔ (ہجرت سے پہلے مدینہ النبیؐ کا نام یثرب تھا) تو پائوں میں چھالے اور زخم، بال بکھرے ہوئے لباس گرد و پسینہ سے آلودہ اور میلا کچیلا۔ اس حالت میں مدینہ میں صحابہ کرامؓ نے سیدنا صہیبؓ کو دیکھا تو حیران رہ گئے اور ان سے ان کا حال پوچھا۔ حضرت صہیبؓ نے مکہ سے روانگی کی ساری تفصیل انہیں سنائی۔ رسول اکرمؐ کو ان کی آمد سے بہت خوشی ہوئی اور فرمایا ’’صہیبؓ نے سودا کیا ہے وہ بڑا نفع بخش ہے، دنیا کے مال و متاع کے بدلے اس نے اپنے رب کی رضا حاصل کرلی ہے۔ اس سے زیادہ خوش نصیب اور کون ہو سکتا ہے۔‘‘ (سیرت ابن ہشام)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More