معاشی دہشت گرد ی

0

بولیویا براعظم جنوبی امریکہ کا مشہور ملک ہے، جس کی سرحدیں برازیل، پیراگوئے، ارجنٹائن، پیرو اور چلی سے ملتی ہیں۔ جس طرح دریائے نیل دنیا کے نو ممالک میں گزرتا ہے، اسی طرح اس خطہ ارضی پر قدرت کا حیرت انگیز شاہکار کہلانے والا ایمزون کے جنگلات کا سلسلہ بھی نو ممالک میں پھیلا ہوا ہے، جن میں بولیویا بھی شامل ہے۔ اس ملک کو قدرت نے بے پناہ وسائل عطا کئے ہیں۔ یہاں سلور، زنک، ٹِن اور ہائیڈرو الیکٹرک پاور کے علاوہ وینزویلا کے بعد سب سے زیادہ گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ بولیویا تیل کے علاوہ ربڑ پیدا کرنے والے جنگلات سے بھی مالا مال ہے۔ نوّے کی دہائی میں جب عالمی مالیاتی اداروں نے یہ دیکھا کہ آئندہ برسوں میں تیل کے بجائے پانی کا شمار کرئہ ارض کے قیمتی ترین ذخیروں میں ہونے لگے گا تو انہوں نے واٹر سپلائی کے منصوبوں کو کنٹرول کرنے کے منصوبوں پر کام شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بولیویا کا انتخاب کرتے ہوئے وہاں کی حکومت پر دبائو ڈالنے لگے کہ وہ بولیویا کے تیسرے سب سے بڑے شہر ’’ Cochabamba‘‘ کا پبلک واٹر سسٹم، انٹرنیشنل انجینئرنگ کمپنی ’’بیکٹل‘‘ کے ہاتھ فروخت کردے۔ لیکن شرط یہ تھی کہ مذکورہ کمپنی اور بولیویائی حکومت کے مابین یہ سودا SAPs کے تحت ہونا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ سودا ہو جاتا تو مذکورہ شہر میں پانی کی فراہمی کے تمام اخراجات کا بوجھ عام صارفین کو اٹھانا پڑتا۔ حالانکہ 1930ء کے عشرے میں امریکہ میں غریب بستیوں کی ترقی کے لیے انہیں پانی و بجلی کی مفت فراہمی کے اصول پر عملدرآمد کیا گیا، کیونکہ اُس دور میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ صاف پانی کی فراہمی، گندے پانی کی نکاسی اور بجلی ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں اپنے شہریوں کو یہ سہولتیں مفت فراہم کریں اور مفت فراہمی مشکل ہو تو ان پر سبسڈی ضرور دیں۔ اس اصول پر امریکہ سمیت کئی ممالک نے عمل کیا، جس کے شاندار نتائج سامنے آئے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ان حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود بولیویا پر مسلسل دبائو ڈال رہے تھے تاکہ وہاں کے عوام کو پیسوں کے عوض پانی فراہم کیا جائے۔ بالآخر بولیویا اِن عالمی مالیاتی اداروں کے دبائو کے سامنے زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا اور اس نے ’’کوچا بامبا‘‘ کے واٹر سسٹم کی خریداری کا حق ’’بیکٹل‘‘ کی ایک ذیلی کمپنی کو چالیس سال تک کے لیے لیز پردے دیا۔ ’’کوچا بامبا‘‘ شہر کے واٹر سسٹم کا ٹھیکہ ’’بیکٹل‘‘ کو ملنے کی دیر تھی کہ وہاں پانی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ پانی کا بل 300 فیصد سے بھی زیادہ بڑھ گیا۔ ’’کوچا بامبا‘‘ کا شمار پہلے ہی پسماندہ شہروں میں ہوتا تھا، لیکن اب پانی کی روز افزوں قیمتوں نے وہاں کے شہریوں کا جینا حرام کردیا۔ ایک طرف ’’معاشی دہشت گرد‘‘ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے مہنگے داموں پانی فروخت کر رہے تھے اور دوسری طرف ’’کوچا بامبا‘‘ کے شہریوں کو بارش کا پانی تک جمع کرنے کی اجازت نہ تھی، کیونکہ ’’بیکٹل‘‘ نے ٹھیکے کی شرائط میں صاف لکھوا رکھا تھا کہ ’’کوچا بامبا‘‘ کے شہری جو پانی بھی استعمال کریں، اس کا انہیں ’’بیکٹل‘‘ کو معاوضہ ادا کرنا پڑے گا۔
ایک طرف اگر غیر ملکی معاشی دہشت گرد پانی کی فروخت سے زیادہ سے زیادہ منافع اکٹھا کر رہے تھے تو دوسری طرف ’’کوچا بامبا‘‘ کے شہری پانی کے لیے ترسنے لگے۔ صورت حال زیادہ بگڑی تو عوام نے احتجاج کا راستہ اپنایا۔ جنوری 2000ء میں ’’کوچا بامبا‘‘ کے شہریوں نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی زیر سرپرستی جاری اِس ’’معاشی دہشت گردی‘‘ کے خلاف مسلسل چار روز تک ہڑتال کی۔ لوگوں نے پانی فروخت کرنے والی کمپنی کے مقامی دفاتر پر ہلہ بولا تو ’’بیکٹل‘‘ کے مطالبے پر بولیویائی صدر ہوگو بینزر (Hugo Banzer) نے فوج کو اُن کی حفاظت کا حکم جاری کر دیا۔ نتیجتاً کئی مقامات پر فوج اور عوام میں تصادم ہوا، جس میں ایک نوجوان ہلاک اور درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے۔ حتیٰ کہ احتجاج پر قابو پانے کے لیے صدر کو مارشل لاء نافذ کرنا پڑا، لیکن پھر بھی عوام کے غم و غصے میں کمی نہ آئی۔ حکومت نے جب دیکھا کہ پانی کے مسئلے پر شروع ہونے والا عوامی احتجاج کھلی بغاوت میں تبدیل ہو سکتا ہے تو بولیویائی صدر نے امریکی سفارت خانے کے حکام سے مشاورت کے بعد ’’بیکٹل‘‘ کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ اپریل 2000ء میں ’’بیکٹل‘‘ نے ’’کوچا بامبا‘‘ میں اپنے آپریشنز بند کردیئے۔ اس عوامی فتح پر ’’کوچا بامبا‘‘ کے شہری اس قدر خوش ہوئے کہ وہ اپنی فتح کا جشن منانے کے لیے پانی کے کپ ہاتھوں میں پکڑے سڑکوں پر نکل آئے اور ایک دوسرے کو پانی پلا کر اپنی کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا۔
دوسری طرف معاشی دہشت گرد اپنی اس شکست پر تلملا رہے تھے۔ انہیں اس ہار سے دو نقصان ہوئے۔ پہلا یہ کہ بولیویائی عوام کی جیبوں پر ڈالے گئے اس ڈاکے کا سلسلہ رک گیا۔ ثانیاً انہیں یہ خدشہ بھی پیدا ہو گیا کہ عالمی مالیاتی اداروں اور ’’بیکٹل‘‘ جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معاشی دہشت گردی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے دیگر غریب ممالک کے عوام بھی بولیویائی شہریوں کی فتح سے حوصلہ پا کر احتجاج کی راہ پر نہ چل پڑیں۔ چنانچہ انہوں نے بولیویا کی مشکیں کسنے کے لیے بین الاقوامی قانون سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ امریکہ اور بولیویا کے مابین دو طرفہ سرمایہ کاری کا کوئی معاہدہ نہ تھا، جبکہ بولیویا اور ہالینڈ کے درمیان 1992ء میں دو طرفہ سرمایہ کاری کا معاہدہ ہو چکا تھا۔ لہٰذا ’’بیکٹل‘‘ نے پہلے ایک ڈچ ہولڈنگ کمپنی کو اپنے کام میں شریک کیا اور پھر اپنی اس ذیلی ڈچ کمپنی کے ذریعے بولیویائی عوام کے خلاف پانچ کروڑ ڈالر کی ادائی کا دعویٰ دائر کرا دیا، جن میں سے نصف رقم ممکنہ منافع اور نصف بطور ہرجانہ تھی۔ بولیویا کے خلاف جاری اس معاشی دہشت گردی پر لاطینی میڈیا تو خوب چیختا چلاتا رہا، لیکن امریکی میڈیا نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی۔
ان حالات میں بولیویا میں ایک نیا لیڈر سامنے آیا، جس کا نام ’’Evo Morales‘‘ تھا۔ ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولنے والا یہ نوجوان قومی اداروں کی نجکاری کے خلاف بڑی توانا آواز بن کر اُبھرا۔ وہ امریکہ کی زیر سرپرستی قائم ’’فری ٹریڈ ایریا‘‘ کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے امریکہ کی نوآبادکاری کو قانونی شکل دینے کا منصوبہ قرار دیتا۔ بولیویائی عوام کو معاشی دہشت گردی کے خلاف ایووموریلز کا جرأت مندانہ کردار اس قدر پسند آیا کہ کچھ عرصے بعد وہ کانگریس کا رکن منتخب ہو گیا۔ یہ تو گویا عالمی مالیاتی اداروں کے سینے پر مونگ دَلنے والی بات تھی۔ چونکہ ایووموریلز ’’کوکا لیرو تحریک‘‘ کا حصہ رہ چکا تھا، جو دراصل کوکا کے پودے اگانے والے اُن کاشت کاروں کا اتحاد تھا، جو کوکا فارمز سے اپنا رزق کماتے تھے۔ امریکہ نے جب کوکا کی فصلیں تلف کرانے کی کوشش کی تو کاشت کاروں کا یہ اتحاد ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔ دراصل کوہِ آنڈیز کے باسی کوکا کے پودے کو ماضی قدیم سے اپنی غذا اور دوا کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں۔ دنیا کی کئی معروف شخصیات کوکا چائے بھی استعمال کرتی ہیں، لیکن موجودہ دور میں منشیات کا دھندا کرنے والوں نے اسی کوکا سے کوکین بنانی شروع کر دی۔ چنانچہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اسی بات کا سہارا لیتے ہوئے ایوو موریلز کو ’’غیر قانونی کوکا ایجی ٹیٹر‘‘ قرار دے دیا، جس کے نتیجے میں ایوو موریلز پر دہشت گردی کا الزام لگا کر 2002ء میں انہیں کانگریس کی نشست سے محروم کر دیا گیا۔ اس پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔ بولیویائی عوام نے اس حرکت کو سی آئی اے کی سازش قرار دیا۔ عوامی احتجاج کا یہ فائدہ ہوا کہ چند مہینوں بعد ہی ایووموریلز کی کانگریس کی رکنیت بحال کردی گئی۔ گاجر اور چھڑی کو بیک وقت استعمال کرنے والوں نے اب اپنا اگلا وار کیا۔ بولیویا میں تعینات امریکی سفیرManuel Rocha نے بولیویائی عوام کو باقاعدہ وارننگ جاری کی کہ ’’میں بولیویا کے الیکٹوریٹ کو خبردار کرتا ہوں کہ اگر تم نے آئندہ ایسے لوگوں کو منتخب کیا، جو بولیویا کو پھر کوکین کا بڑا ایکسپورٹر بنانا چاہتے ہیں تو اس سے آپ کے لیے امریکی امداد کی فراہمی خطرے میں پڑ جائے گی‘‘۔ بولیویائی عوام نے امریکی سفیر کے ان الفاظ کو اپنی ہتک سمجھا۔ ایووموریلز کی پارٹی MAS نے اس کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج کیا۔ 2002ء کے صدارتی انتخابات میں ایوو موریلز کی پارٹی محض چند ووٹوں کے فرق سے دوسرے نمبر پر رہی۔ نئے صدر Gonzalo Sánchez de Lozada نے اقتدار سنبھالتے ہی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مطالبے پر ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا، جس کے نتیجے میں غریب عوام کے لیے سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ چنانچہ عوام نے ایک بار پھر احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔ حکومت نے احتجاجی آواز کو دبانے کی کوشش کی تو 30 افراد کی لاشیں گریں اور درجنوں گھائل ہوئے۔ اسی دوران میں نئے صدر کا ایک ایسا منصوبہ بے نقاب ہوا، جس کے تحت قدرتی گیس بولیویائی عوام کو دینے کے بجائے نہایت سستے داموں امریکہ کو ایکسپورٹ کی جانی تھی۔ اس پر بولیویائی عوام مزید مشتعل ہوئے اور انہوں نے پورا ملک جام کردیا۔ نئے صدر کے لیے فرار کے علاوہ اور کوئی راہ باقی نہ رہی، جسے امریکہ نے فوری طور پر اپنے ہاں پناہ دے دی۔ نا صرف پناہ دی، بلکہ کچھ عرصے بعد ایک مقدمے کا سامنا کرنے کے سلسلے میں بولیویائی حکومت نے جب اپنا مفرور صدر امریکہ سے واپس مانگا تو امریکی حکومت نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ 2006ء میں ایووموریلز بولیویا کے 80ویں صدر منتخب ہوگئے۔ بولیویا میں عوام کے ہاتھوں معاشی دہشت گردوں کی شکست کی اس کہانی میں عقل والوں کے لیے کئی سبق پنہاں ہیں، اگر کوئی سبق سیکھنا چاہے تو۔ John Perkins نے اپنی کتاب ’’The Secret History of the American Empire ‘‘ میں بولیویا کی یہ کہانی بیان کرتے ہوئے SAPs کا ذکر کیا ہے۔ یہ SAPsکیا چیز ہے، اس پر اگلی نشست میں بات کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More