پاکستان کے قیام کو ستر برس گزرے ہیں، لیکن برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے ایرانی باشندوں سے مذہبی، لسانی، تمدنی اور تہذیبی و ثقافتی تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے دور میں ایران اور پاکستان دونوں امریکی کیمپ میں تھے۔ اس بنا پر بھی دونوں ملکوں کے تعلقات دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ فوجی و دفاعی معاملات میں بہت آگے بڑھے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں بھارت سوویت یونین کی گود میں بیٹھا ہوا ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے مخالف کیمپ میں شمار ہوتا تھا۔ پھر جب آیت اللہ خمینی نے ایران میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹا اور وہاں انقلاب برپا کیا تو اسے اسلامی انقلاب کا نام دیا گیا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں ایرانی معاشرہ بلاشبہ بہت تبدیل ہوا اور وہاں مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب کے بجائے مسلم تمدن و معاشرت کی جھلکیاں نظر آنے لگیں۔ اپنی مصلحتوں کے تحت بعض مسلم ممالک اور ان کے مذہبی و سیاسی رہنما تسلیم کریں نہ کریں، امام خمینی کا انقلاب اپنی اصل میں خالص اسلامی نہیں، بلکہ شیعہ مسلک کا انقلاب تھا۔ اسی لئے تو ایران کے ہر علاقے میں سنی مساجد بند کرکے ان کی پنج وقتہ نمازوں ہی پر نہیں، جمعہ اور عیدین کی نمازیں بھی کھلے عام پڑھنے پر آج تک پابندی عائد ہے۔ جبکہ پاکستان بھر میں محرم الحرام کے موقع پر شیعہ ماتمی جلوسوں کے باعث کئی کئی روز تک اہم شاہراہیں سیل کردی جاتی ہیں۔ مسلک کے اسی اختلاف کی بنا پر ایران کے سعودی عرب سے بھی تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات ایرانی عازمین حج، اس مقدس فریضے کی ادائیگی سے بھی محروم رہے، جبکہ حج کے موقع پر سعودی حکومت کی فراخدلی اور وسیع النظری مثالی ہوتی ہے۔ ایرانی حکومتیں اپنی وسیع تر سوچ اور نظریات کے زبانی طور پر بلند بانگ دعوے کرتی ہیں، لیکن دنیا بھر کی سنی حکومتوں اور اس مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ ان کے تعلقات اکثر ناخوشگوار ہی رہتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ہم آہنگی اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ بہترین برادرانہ تعلقات کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ لیکن ایران کی حکومتیں آئے دن اپنے ملک میں دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگانے میں کوئی تامل یا لحاظ نہیں کرتیں۔ دوسری جانب ایران کے بعض گروہوں کی جانب سے پاکستان میں تخریب کاری کی کوششوں اور کارروائیوں کے باوجود پاکستان نے کبھی کسی سخت بیان یا اقدام کا سہارا نہیں لیا۔ ہر مرتبہ ایرانی حکومتوں کو ملوث کرنے کے بجائے انہیں محض دہشت گردی قرار دے کر اس سے مشترکہ طور پر نمٹنے کا عزم ظاہر کیا۔ بھارت کا حاضر سروس فوجی جاسوس کل بھوشن یادیو ایران کے راستے اور اسی کے پاسپورٹ پر پاکستان میں داخل ہوتے وقت گرفتار ہوا تھا، جس پر پاکستان کی حکومت اور فوج نے فوری طور پر کوئی سخت کارروائی نہیں کی اور اس کا مقدمہ اب تک عالمی عدالت میں لٹکا ہوا ہے۔
دوسری طرف چند روز قبل پاسداران انقلاب کی ایک بس کو سیستان میں خودکش دھماکے میں اڑایا گیا اور جس میں اب تک اکتالیس افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔ یہ ایرانی فوجی سیستان سے ایرانی بلوچستان کے شہر زاہدان کی طرف جا رہے تھے کہ ان کی بس پر حملہ ہوگیا۔ ایک دہشت گرد گروپ جیش العدل نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے۔ یاد رہے کہ ان شہروں میں دہشت گردوں کے مسلح گروہ اکثر برسر پیکار رہتے ہیں، جن پر قابو پانا ایرانی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر پاسداران انقلاب کے کمانڈر میجر جنرل محمد علی جعفری نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ بصورت دیگر ایران خود ان کے خلاف کارروائی کرے گا۔ انہوں نے حکومت پاکستان کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ انقلاب اور اسلام کے دشمن، خطرناک عناصر کو پناہ دیئے ہوئے ہے۔ وہ جانتی ہے کہ ان کے ٹھکانے کہاں کہاں ہیں اور یہ عناصر پاکستانی سیکورٹی اداروں کی پناہ میں ہیں۔ پاسداران انقلاب کے کمانڈر اگر ثبوت و شواہد پیش کرکے یہ بھی بتادیتے کہ پاکستان کی حکومت، افواج اور عوام، جو ہمیشہ ایران کے تحفظ و سلامتی کی دعائیں مانگنے اور اسے یقینی بنانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں، انہیں ایران میں دہشت گردی کراکے کیا حاصل ہوگا۔ پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں افواج پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے، اس کی ساری دنیا معترف ہے تو ایک برادر پڑوسی ملک کو پاکستان پر بلاجواز اور بے بنیاد الزام عائد کرنے سے کیا فائدہ ملے گا۔ جنرل محمد جعفری کا لب و لہجہ بھارت کے انتہا پسند ہندو رہنمائوں سے بڑی مماثلت رکھتا ہے، جنہوں نے ہمیشہ کی طرح جمعرات کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فوجی حملے پر خود کش حملے کی ذمہ داری فوراً ہی پاکستان پر ڈال دی۔ پاکستان پوری کوشش کررہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا میں مدد کرکے اس ملک میں امن و استحکام کا قیام یقینی بنائے۔ لیکن ایک طرف سے بھارت اور دوسری سمت سے ایران اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر خطے کی فضا کو خواہ مخواہ کشیدہ بناکر جنگ کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ایران کو اگر پاکستان سے کوئی شکایت ہے تو وہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان صدیوں کے مذہبی و ثقافتی تعلقات کو پیش نظر رکھ کر دھمکیاں دینے کے بجائے سفارتی سطح پر گفت و شنید کا طریقہ اختیار کرے۔ بھارت سے ہم ایسی توقع نہیں رکھ سکتے۔ ایرانی حملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس سے قبل پاسداران انقلاب نے حملے کی ذمہ داری امریکا اور اسرائیل پر عائد کی تھی۔ ایران اس امر سے لاعلم نہیں ہوگا کہ یہی دونوں ممالک ان دنوں بھارت کی سرپرستی کر رہے ہیں اور ان تینوں کے اسلام دشمنی اور مسلم کشی کے جذبات کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ اسی دوران ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ ایران اور بھارت کو گزشتہ دنوں خود کش حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میری بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بات ہوئی ہے اور ہم نے طے کیا ہے کہ بس اب بہت ہوگیا۔ ہم خطے میں دہشت گردی کا مقابلہ مل کر کریں گے۔ کوئی ایران کو یاد دلادے کہ حالیہ تاریخ میں خود پاکستان کو دہشت گردی سے بہت جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس لئے وہ کسی دوسرے ملک میں دہشت کرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس پر بے بنیاد الزام تراشی کے بجائے دہشت گردی کا نتیجہ خیز مقابلہ کرنے کے لئے اس کے تجربات اور اہلیت سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ خطہ فی الواقع دہشت گردوں سے پاک ہو سکتا ہے۔ پاکستان پر ایران کی الزام تراشی میں اضافہ ایک ایسے وقت ہونا جب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے تاریخی دورے پر ہیں، خالی ازعلت نہیں ہے۔ ایران کو خود اپنے، خطے، امت مسلمہ اور عالمی برادری کے مفاد میں مخصوص و محدود نظریات کے بجائے وسیع تر اسلامی و انسانی جذبے کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post