امام شعبیؒ بڑے جلیل القدر تابعی امام الحدیث ہیں۔ پانچ سو صحابہ ؓسے ملاقات کی۔ ہزاروں باکمال محدثین یہاں تک کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ بھی آپ کے شاگردوں میں شامل ہیں، مگر اس جلالت شان کے باوجود بہت ہی زندہ دل، نہایت ہی خوش مزاج اور بے حد باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ ایک مرتبہ محدثین کی ایک جماعت آپ کی درس گاہ میں حاضر ہوئی، جس میں ایک ضعیف العمر بوڑھے آدمی بھی تھے۔ آپ نے ان بڑے میاں سے پوچھا: کیوں بڑے میاں! آپ کا پیشہ کیا ہے؟ بڑے میاں نے عرض کیا: میں رفوگر ہوں، پھٹے کپڑوں کو رفو کیا کرتا ہوں۔
امام شعبیؒ نے فرمایا کہ میرے ہاں کوئی پھٹا کپڑا تو نہیں ہے، مگر ایک ٹوٹا ہوا مٹکا ہے، کیا آپ اس مٹکے کو بھی رفو کر سکتے ہیں؟ بوڑھا بھی بڑا دلچسپ اور حاضر جواب تھا، برخستہ کہا کہ ہاں! ہاں! آپ ریت کا دھاگا منگا دیجئے، میں آپ کے ٹوٹے ہوئے مٹکے کو ضرور رفو کر دوں گا، بوڑھے کا یہ جواب سن کر امام شعبیؒ کو اس زور سے ہنسی آئی کہ وہ ہنستے ہنستے اپنی مسند پر لیٹ گئے۔
٭… ایک اعرابی عظیم محدث حضرت سفیان بن عینیہؒ کی درس گاہ میں برسوں درس حدیث میں حاضر ہوتا رہا، ایک دن امام موصوفؒ نے پوچھا کہ تم نے مجھ سے ہزاروں حدیثیں سنی ہیں، یہ تو بتائو تمہیں کون کون سی حدیث زیادہ پسند آئی؟
اعرابی نے جواب دیا: صرف تین حدیثیں۔ ایک تو ’’حضورؐ کو میٹھا اور شہد پسند تھا‘‘ دوسری حدیث ’’جب عشاء کی نماز کے وقت رات کو کھانا دستر خوان پر آ جائے تو نماز کو مؤخر کرکے پہلے کھانا کھا لینا چاہئے۔‘‘
تیسری حدیث ’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔‘‘
اعرابی کا یہ جواب سن کر امام موصوفؒ اور حاضرین درس گاہ ہنس پڑے۔ (مستطرف، ج 2، ص 226)
٭… ایک بدوی چور جس کا نام موسیٰ تھا، کسی کی درہم بھری ہوئی تھیلی چرا کر مسجد میں گیا اور تھیلی ہاتھ میں آستین کے چھپائے ہوئے جماعت میں داخل ہو گیا۔ اتفاق سے امام صاحب نے الحمد کے بعد یہ آیت پڑھی (ترجمہ: تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ!) وہ تھیلی پھینک کر مسجد سے بھاگا اور کہا: اے امام! خدا کی قسم تو یقیناً بہت بڑا جادوگر ہے۔ (مستطرف، ج 2، ص 226)
٭… ایک مہمل گو شاعر نے معروف مصنف حضرت مولانا جامیؒ کے پاس آ کر پہلے اپنی مہمل اور بے تکی شاعری سے علامہ موصوف کا دماغ چاٹ ڈالا اور آپ اخلاقاً صبر کے ساتھ اس کے اشعار سنتے رہے، پھر اس نے فخریہ لہجے میں کہا کہ رات خواب میں حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور انہوں نے میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا۔ حضرت مولانا جامیؒ نے فرمایا کہ تمہیں غلط فہمی ہوئی، وہ تمہارے منہ پر تھوکنے کیلئے آئے تھے، تم نے منہ کھول دیا اور تھوک منہ میں جا پڑا۔ (علمی لطائف، ص 105)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post