سرفروش

0

عباس ثاقب
میں بھی اب خود کو خاصا مطمئن محسو س کر رہا تھا۔ مجھے لگا کہ میں اس قابلِ نفرت شخص کو ٹھکانے لگانے کے بعد خطرے کی زد سے باہر نکلتا جا رہا ہوں۔ میں نے جیپ کے سامنے اور عقب میں دور تک لگ بھگ سنسان سڑک پر نظر ڈالی اور سنجیدہ لہجے میں سکھبیر کو مخاطب کیا۔ ’’چلو یہ معاملہ تو اپنے انجام تک پہنچ گیا یار۔ اب یہ بتاؤ کہ آگے کا کیا پروگرام ہے؟‘‘۔
اس نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ ’’پروگرام کیسا ذاکر بھائی۔ بس اب امرتسر جاکر آج کی رات کامیابی کا جشن منائیں گے۔ میرے ساتھیوں کو موج مستی کیے بہت دن ہوگئے ہیں۔ ان کے ساتھ کیسر کے ڈھابے پر چل کر کھانا پینا کریں گے۔ پھر انہیں مٹھے مالٹے (دیسی شراب) کی ایک بوتل دے کر عیاشی کے لیے مونی چوک چھوڑ کر ہم دونوں ہرمندر صاحب واپس لوٹ آئیں گے‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم مجھ پر یہ جتانا چاہتے ہو کہ تم اچھے بچے ہو۔ دارو اور ’’اس‘‘ بازار کا شوق نہیں رکھتے؟‘‘۔
میرا خیال تھا کہ وہ میری شرارت بھری چٹکی پر زور دار قہقہہ لگائے گا۔ لیکن میری توقع کے برعکس سکھبیر یک دم سنجیدہ ہوگیا۔ اس نے کچھ دیر کسی سوچ میں گم رہنے کے بعد کہا۔ ’’ذاکر بھائیا۔ مجھ سے زیادہ شوقین تو ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ لیکن میں نے اپنی تمام دلچسپیاں، ہر تفریح اور شوقینی اپنی قوم کے لیے آزاد وطن، اپنا خالصتان حاصل کرنے تک ملتوی کر رکھی ہے‘‘۔
اس کی بات سن کر میں چونکا۔ بظاہر خوش باش اور لا ابالی دکھائی دینے والے اس نوجوان کا یہ روپ میرے لیے حیران کن تھا۔ مجھے اس وقت تک خالصتان کے قیام کے لیے سکھوں کی جدوجہد کی شدت کا کوئی خاص اندازہ نہیں تھا۔ سکھبیر نے میری حیرانی بھانپتے ہوئے کہا۔ ’’کیا تم یقین کرو گے کہ میں پچھلے دو سال میں ایک مرتبہ بھی اپنے گھر والوں سے ملنے پٹھان کوٹ نہیں گیا۔ بس دو تین بار میری ماں، بہن اور منگیتر میرے باپ کے ساتھ مجھ سے ملنے ہرمندر صاحب آئی ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں بھائی کہ اتنی طاقت ور غاصب قوم کے شکنجے سے آزادی حاصل کرنے کا خواب پورا کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ ایسی چھوٹی موٹی قربانیوں کی تو کوئی اوقات ہی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے واہگرو جانے کتنی گردنیں کٹوانی پڑیں گی‘‘۔
میں نے حقیقی ستائش کے ساتھ کہا۔ ’’یار تم نے تو مجھے حیران کر دیا ہے۔ ہم تو کشمیر میں اپنی خون ریز جدوجہد پر ہی فخر کرتے رہے ہیں۔ لگتا ہے اب واقعی خالصتان کے قیام میں زیادہ دیر نہیں ہے‘‘۔
میری بات سن کر اس نے خوش ہونے کے بجائے اداسی سے نفی میں سر ہلایا۔ ’’واہگرو کرے تمہاری بات سچ ہو جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مشن تم کشمیریوں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے۔ وہاں تیرہ چودہ سال تک شیخ عبداللہ کی چرب زبانی سے بے وقوف بننے والی قوم اب رفتہ رفتہ سچائی سے واقف ہو رہی ہے اور وہاں کے جو لوگ تمہارے ساتھ عملی طور پر شامل نہیں، وہ بھی کچھ مفاد پرستوں کے علاوہ تمہاری اس جدوجہد کی مخالفت نہیں کرتے۔ جبکہ ہماری قوم میں خالصتان کے مشن کے مخالفوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جو نہرو کے دکھائے ہوئے سہانے سپنوں سے اب بھی جاگنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ بات تو میں نے بھی محسوس کی ہے۔ خود میرے دوستوں امر دیپ اور بشن دیپ کا باپ ان کے خیالات سے ناراض رہتا ہے‘‘۔
سکھبیر نے کہا۔ ’’اسی لیے ہمیں اندازہ ہے کہ ہماری جدوجہد بہت طویل اور خونریز ہوگی۔ لیکن ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ نہرو سرکار خود ایسے خالصہ دشمن کرتوت کر رہی ہے کہ ہماری قوم میں رفتہ رفتہ بیداری بڑھتی جا رہی ہے‘‘۔
میں نے سوال کیا۔ ’’یار، میری نظر میں ہماری اور تم لوگوں کی آزادی کی جدوجہد میں بہت سی چیزیں ایک جیسی ہیں اور بہت سی بالکل مختلف ہیں۔ مثلاً ہم لوگوں کے پاس وسائل کم ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں ہتھیار حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ لیکن اوپر والے نے ہمیں اپنے دشمن سے پوشیدہ رہنے کے لیے فراوانی سے قدرتی پناہ گاہیں مہیا کر رکھی ہیں۔ جبکہ میرا خیال ہے تم لوگوں کے پاس ہتھیاروں کی خریداری کے لیے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن روپوش ہونے کے لیے جگہوں کا فقدان ہے اور اسی لیے تم لوگوں کو سرکار کے مخبروں کا بھی خطرہ لگا رہتا ہوگا‘‘۔
سکھبیر نے تائید کی۔ ’’یہی وجہ ہے کہ ہم ہرمندر صاحب جیسی امن و شانتی کی علامت عمارت میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ بنیا سرکار کی پولیس ہمارے مقدس ترین مذہبی مقام پر قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرسکتی۔ انہوں نے ایسی جرأت کی تو کروڑوں سردار ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے‘‘۔
میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے سکھبیر بھائی۔ لیکن وہ یاتریوں کے روپ میں اپنے جاسوس تو ہرمندر صاحب میں بھیج سکتے ہیں ناں؟‘‘۔
اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’بالکل بھیج سکتے ہیں۔ بلکہ بھیجتے بھی ہوں گے۔ لیکن ہم نے ایسا نظام قائم کر رکھا ہے کہ کوئی یاتری اگر ہماری حفاظت کے لیے بنائے گئے دائرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ فوراً نظروں میں آجاتا ہے اور اس کی نگرانی شروع ہو جاتی ہے۔ اب تک کئی یاتریوں کو ہمارے ساتھی ایسے علاقوں میں ٹریس کر چکے ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی سرکاری جاسوس نہیں نکلا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اچھا یہ بتاؤ کیا تم لوگوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ جنگ عظیم کے زمانے کی ان بندوقوں کے ساتھ تم لوگ آزادی کی ہتھیار بند جنگ میں سرکار کا مقابلہ نہیں کر سکتے؟‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More