حضرت ابو درداءؓ فرماتے ہیں کہ موت نصیحت کا انتہائی موثر ذریعہ ہے، لیکن اس سے غفلت بھی بہت زیادہ ہے۔ موت وعظ کیلئے کافی ہے اور زمانہ لوگوں میں جدائی پیدا کرنے کیلئے تیار ہے۔ آج جو لوگ گھروں میں ہیں، وہ کل قبروں میں ہوں گے۔
حضرت رجاء بن حیوۃؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص موت کو کثرت سے یاد کرے گا اس کے دل سے حسد اور اتراہٹ نکل جائے گی، یعنی نہ تو وہ کسی دنیوی نعمت کی بناء پر ذہنی الجھن میں مبتلا ہوگا اور نہ ہی فرح و مسرت میں مست ہو کر معاصی کا ارتکاب کرے گا۔
حضرت عونؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں موت کی یاد جم جاتی ہے، وہ اگلے دن تک بھی اپنی زندگی کے رہنے کا یقین نہیں رکھتا، کیونکہ کتنے ایسے دن تک پہنچنے والے ہیں کہ وہ موت کی وجہ سے دن بھی پورا نہیں کر پاتے اور کتنے لوگ کل کی امید رکھنے والے ہیں، مگر کل تک نہیں پہنچ پاتے۔ اگر تم موت اور اس کی آمد کو دیکھ لو تو آرزو اور اس کے دھوکے کو ناپسند کرو گے، آپ ہی سے مروی ہے، فرماتے تھے کہ آدمی جس عمل کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتا ہے (یعنی گناہ اور معصیت) اسے فوراً چھوڑ دے، پھر کوئی مشکل نہیں، جب چاہے مر جائے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے، موت کی یاد جس کے دل میں جگہ بنا لے تو وہ اپنے قبضے کے مال کو ہمیشہ زیادہ ہی سمجھے گا۔ (یعنی مزید مال بڑھانے کی فکر نہ کرے گا)
حضرت مجمع تیمی ؒ فرماتے ہیں کہ موت کی یاد ایک طرح کی مالداری ہے۔
حضرت کعب احبار ؒ سے مروی ہے، جو شخص موت کو پہچان لے اس کیلئے دنیا کی تمام مصیبتیں اور رنج و غم ہلکے ہو جائیں گے۔
٭… ایک دانش مند کا قول ہے کہ دلوں میں عمل کی زندگی پیدا کرنے کیلئے موت کی یاد سب سے زیادہ موثر ہے۔
ایک عورت نے حضرت عائشہؓ سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ نے نصیحت فرمائی کہ تم موت کو کثرت سے یاد کیا کرو تمہارا دل نرم ہو جائے گا۔
حضرت علی بن ابی طالبؓ سے نقل کیا گیا ہے، آپؓ فرماتے تھے کہ قبر عمل کا صندوق ہے اور موت کے بعد اس کی خبر ملے گی۔ (شرح الصدور 46، 48)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post