سرفروش

0

عباس ثاقب
مجھے لگا کہ میری بات سن کر سکھبیر کچھ چونکا ہے۔ لیکن کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’اب تم نے اپنی پہچان منوالی ہے بھائی، تو میں تمہیں بتانے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا کہ ہم لوگ جدید اور خودکار ہتھیار حاصل کرنے کی تیاریاں مکمل کر چکے ہیں‘‘۔
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔ میں اس سے پوری بات اگلوانا چاہتا تھا۔ لیکن اگر میرے پوچھنے پر وہ انکار کر دیتا تو مجھے خفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ لہٰذا میں نے یہ بات بعد میں کسی وقت کے لیے اٹھا کر رکھ دی۔ اسے بھی اس معاملے کی نزاکت کا احساس رہا ہوگا۔ چنانچہ اس نے گفتگو کا رخ ماسٹر تارہ سنگھ اور نہرو سرکار کے درمیان وقفے وقفے سے چلنے والی رنجشوں، چپقلشوں، مذاکرات، مطالبوں، بھوک ہڑتالوں اور مورچوں کی طرف موڑ دیا۔
وہ سکھوں میں سب سے زیادہ سیاسی اور مذہبی اثر و رسوخ رکھنے والے اکالی دل سے بھی کافی نالاں دکھائی دیا۔ کیونکہ خالصہ حقوق کے لیے جنگ لڑنے کے دعوے کے ساتھ قوم کی حمایت حاصل کرنے والی یہ جماعت اب رفتہ رفتہ صرف ہندوستان کی انتخابی سیاست اور اقتدار کی جدوجہد تک محدود ہوگئی تھی۔
ہم اب بشمبر پورکے قریب پہنچنے والے تھے۔ میرے اندازے کے مطابق بشمبر پور سے امرتسر پہنچنے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ بیس پچیس منٹ لگتے۔ سکھبیر ایک بار پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ خو ش گپیوں میں مصروف ہوگیا تھا۔ میں نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کرنا چاہا۔ لیکن ان تینوں کے ہنسی مذاق سے جیپ میں اتنا شور ہو رہا تھا کہ میں نے باقی غور و فکر کو ہرمندر صاحب پہنچنے تک ملتوی کر دیا۔
ہم بشمبر پور سے مڑکر جی ٹی روڈ پر چڑھے تو ہمارا سفر زیادہ ہموار اور تیزرفتار ہوگیا۔ سڑک پر اچھا خاصا رش تھا۔ لیکن پشمبر پور سے لگ بھگ نصف میل آگے بڑھے تو گاڑیوں کا ہجوم بڑھتے بڑھتے ٹریفک جام کی شکل اختیار کر گیا۔ چھوٹی بڑی گاڑیاں چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھیں۔ جبکہ سامنے سے آنے والی گاڑیوں کی تعداد بھی خاصی کم تھی اور ان کی آمد کے درمیان وقفہ نظر آرہا تھا۔
یہ سب دیکھ کر سکھبیر نے الجھن بھرے لہجے میں کہا۔ ’’یہ کیا چکر ہے یار؟ ٹریفک کو کون سی موت آگئی ہے؟‘‘۔
مہتاب سنگھ نے اپنے مخصوص شگفتہ لہجے میں کہا۔ ’’فکر نہ کرو پاہ جی۔ آگے کسی بیل گاڑی کا پہیہ نکل گیا ہوگا اور وہ جی ٹی روڈ کے عین بیچ میں کھڑی ہوگی۔ ابھی لوگ خود ہی راستہ کھلوا دیں گے‘‘۔
یہ مزاحیہ قیاس آرائی سن کر اس کے دونوں ساتھیوں نے قہقہہ لگایا۔ لیکن اس دوران میں میرے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔ میں نے تیز لہجے میں مہتاب سنگھ سے پوچھا۔ ’’میرا خیال ہے ہم آگے ایک نہر کے پل پر سے گزریں گے؟‘‘۔
مہتاب سنگھ نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے ہاں میں گردن ہلائی اور بمشکل سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں جی، قصور نالے کا پل ہے۔ میرا خیال ہے وہیں ٹریفک پھنسا ہوا ہوگا‘‘۔
میں نے سکھ بیر کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔ ’’ٹریفک نہیں پھنسا ہے۔ وہاں پولیس نے ناکہ لگا رکھا ہے۔ وہ مٹھو سنگھ کو ہلاک کر کے آنے والوں کی جیپ تلاش کر رہے ہیں‘‘۔
میری بات سن کر سکھبیر کے چہرے کے تاثرات تیزی سے بدلے۔ اس نے تشویش بھرے لہجے میں دہرایا۔ ’’ناکہ؟‘‘۔
میں نے وثوق سے ہاں میں گردن ہلائی۔ اس پر شیر دل سنگھ نے کہا۔ ’’لیکن پولیس کو اتنی جلدی کیسے خبر مل گئی؟ اور وہ بھی اتنی پکی کہ انہوں نے تلاش بھی شروع کر دی؟‘‘۔
میں غیر ارادی طور پر تیز لہجے میں بولا۔ ’’اتنی جلدی کا کیا مطلب؟ ہمیں وہاں سے نکلے آدھا گھنٹے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ کئی منٹ تو سڑک پر پھنسی بیل گاڑی نے خراب کر دیئے تھے۔ حویلی میں ٹیلی فون ہوگا۔ وہاں سے ترن تارن کے پولیس آفس اطلاع دی گئی ہوگی۔ ہو سکتا ہے پولیس والوں کا وائرلیس کے ذریعے بھی آپس میں رابطہ ہو۔ مٹھو سنگھ یہاں کی اتنی بڑی شخصیت ہے کہ چند منٹوں میں پورے علاقے میں پولیس کو خبردار کر دیا گیا ہوگا۔ ہو سکتا ہے یہاں پہلے سے پولیس والے تعینات ہوں اور انہوں نے حکم ملتے ہی ناکہ لگا دیا ہو؟‘‘۔
ظاہر ہے، میں انہیں یہ تو نہیں بتا سکتا تھا کہ پٹیالے کا رئیس بن کر ہتھیار خریدنے کے لیے جاتے ہوئے میں چند دن پہلے ہی اس صورتِ حال کو بھگت چکا ہوں۔ ادھر میری بات کا وزن محسوس کر کے سکھبیر بے چین ہوگیا۔ ’’یار تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ لیکن اب ہم کیا کریں؟ امرتسر جانے کا تو یہی راستہ ہے‘‘۔
میں نے سامنے سڑک پر نظر دوڑائی اور پھر لگ بھگ سو گز آگے دائیں طرف جانے والی ایک کچی سڑک کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔ ’’یہ راستہ کہاں جاتا ہے؟‘‘۔
مہتاب سنگھ نے جلدی سے بتایا۔ ’’اس سڑک پر کوئی ایک میل آگے مانوالا پنڈ ہے۔ پھر دو میل آگے تلونڈی ڈوگراں قصبہ آئے گا‘‘۔
میں نے عجلت بھرے لہجے میں پوچھا۔ ’’وہاں سے امرتسر کے لیے کوئی راستہ نکلتا ہے؟‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More