اسلام دین رحمت ہے (دوسرا حصہ)

0

عبدالمالک مجاہد
رسول اکرمؐ اپنے گھر والوں سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ان کا ہر معاملے میں خوب خیال رکھتے تھے۔ ایک صحابیؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کے بیٹے ابراہیمؓ مدینہ کے اطراف میں ایک لوہار کی بیوی کے پاس تھے۔ وہ انہیں دودھ پلانے کا فریضہ سر انجام دیتی تھی۔ یہ جگہ مسجد نبوی سے جنوب میں مسجد قباء کے گرد و نواح میں بنتی ہے۔ اب دیکھیے کہ رسول اکرمؐ جو کائنات کی سب سے مصروف ترین شخصیت تھے، سارے کام چھوڑ کر اپنے بیٹے سے ملنے کے اس لوہار کے گھر تشریف لے جاتے۔ بچے کو گود میں لیتے، اس کو چومتے، پیار کرتے اور پھر واپس اپنی مسجد تشریف لے آتے۔ اب آپ اس طرز عمل کو کیا نام دیں گے؟ کیا یہ اپنے اہل و عیال اپنے گھر والوں کے ساتھ محبت، پیار اور اعلیٰ سلوک نہیں کہ آپؐ سارے کام چھوڑ کر اپنے بیٹے سے پیار کرنے کے لیے ایک لمبا سفر طے فرماتے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اکرمؐ اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ کیسے ہوتے تھے؟ مراد یہ تھی کہ آپؐ گھر میں کیا کرتے تھے؟ گھر والوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟ جواب میں سیدہؓ نے فرمایا: آپؐ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں لگے رہتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو تے۔
ہمارے معاشرے میں اگر کوئی شخص گھر کے کام کاج کرتا ہے۔ اپنی بیوی کے ساتھ گھر کی صفائی یا کھانا بنانے میں تعاون کرتا ہے تو اس کے دوست یار اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اسے زن مرید جیسے القابات دیئے جاتے ہیں۔ اس بات کو نہ بھولیے کہ اگر آپ کی اہلیہ بیمار ہیں۔ بچے کی ولادت متوقع ہے یا کسی بڑی دعوت کا اہتمام ہو رہا ہے تو آپ آگے بڑھ کر اس کے ساتھ تعاون کر دیتے ہیں، اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں تو یہ تعاون نبی اکرمؐ کی سنت ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی گھر والوں کے ساتھ رحمت کا مظہر ہے۔
رسول اکرمؐ سخت مزاج یا گھر والوں کو تنگ کرنے والے، انہیں طعنہ دینے والے نہیں تھے، بلکہ کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ آپؐ اپنے ذاتی کام خود کرلیتے تھے۔ بعض لوگ گھر کے باہر تو بڑے مقبول ہوتے ہیں۔ لوگ ان کی تعریفیں بیان کرتے تھکتے نہیں، مگر جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے چہرے پر غصے کے آثار ہیں، برتن پھینک رہے ہیں۔ بیوی بچوں، نوکروں کو گالیاں دے رہے ہیں،برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ گھر والے ڈر کر بیٹھ جاتے ہیں۔ گھر کے افراد ایسے باپوں کے لیے یہی دعا کرتے ہیں کہ بہتر ہے وہ گھر میں داخل نہ ہی ہوں۔ رسول اکرمؐ بعض اوقات اپنے گھر رات کو تاخیر سے تشریف لاتے۔ اگر اہل خانہ سو چکے ہوتے تو انہیں جگانا مناسب نہ سمجھتے۔ گھر میں جو تھوڑا بہت کھانا ہوتا اسے خود ہی تناول فرما لیتے۔ آپؐ چند لقمے ہی کھایا کرتے تھے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپؐ گھر والوں پر ناراض ہو رہے ہوں کہ تم نے میرا انتظار کیوں نہیں کیا، کیوں سو گئے ہو۔ ہم نے ایسے مرد حضرات کو بھی دیکھا ہے جو اپنی بیوی کی کھڑے کھڑے اس لیے بے عزتی کر دیتے ہیں کہ اس نے دروازے کی کنڈی کھولنے میں ذرا سی تاخیر کیوں کر دی؟ یا سالن میں نمک یا مرچ کیوں زیادہ ہے؟ اسے میں رحمت کا نام کیوں نہ دوں کہ رسول اکرمؐ نے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالا۔ اگر کھانا آپؐ کی مرضی کا نہیں تو بھی اس پر نکتہ چینی نہیں کی۔
ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ اگر کپڑے استری نہیں ہوئے ہیں تو گھر میں عذاب آ جاتا ہے۔ بیچاری بیوی سہمی پھرتی ہے۔ اگر بٹن ٹوٹ گیا ہے اور بیوی اسے تبدیل نہیں کر سکی، اگر کپڑے کو پیوند لگنے والا اور بیوی سے تاخیر ہو گئی ہے یا بھول گئی تو اسے سو سو باتیں سننے کو ملتی ہیں ۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More