نریندر مودی کی خونریز انتخابی مہم کا آغاز

0

نصرت مرزا

اقتدار کا کھیل بڑا بے رحم ماناجاتاہے، اس میں کوئی رشتہ، کوئی ناطہ پیش نظر نہیں رہتا۔ اِس میں انسانیت کو خاطر میں نہیں لایا جاتا، اس کا اظہار زمانہ حال میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 14 فروری 2019ء کو کیا، جب ایک کشمیری نوجوان نے خودکش بمبار بن کر یا بنا کر بھارت کے فوجی کارواں جس میں 2500 فوجی شامل تھے، پر حملہ کردیا، جس میں 44 بھارتی مارے گئے۔ ایک بھارتی جنرل کے مطابق اس خود کش دھماکے میں جو بارود استعمال ہوا، وہ بھارت میں بنا اور وہ بارود پہاڑ کو کاٹنے کیلئے لایا گیا تھا تاکہ سڑک بنائی جاسکے۔ مودی کی انتخابی مہم پھیکی تھی، اس نے خونریزی سے اس مہم کو خون کی لالی سے گلنار کرنے کی کوشش کی اور بھارتی عوام کو جنگی جنون میں مبتلا کردیا اور بدلہ لینے کا نعرہ لگانا شروع کردیا، بغیر کسی تحقیق کے الزام پاکستان پر لگایا اور دھمکیاں دے رہے ہیں کہ پاکستان میں ایک نیا بنگلہ دیش بنا دیں گے۔ مجھے ایک بھارتی چینل 18 نے جب اس پر تبصرہ کرنے کو کہا تو میرا جواب تھا کہ اب خواب میں رہ کر خواب دیکھ رہے ہیں، پھر یہ کہہ دیا کہ این خیال است و مجال است و جنوں۔ اُن کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ خودکش حملہ ہو یا ایران کے پاسداران پر حملہ، پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری آرہی ہے، کیونکہ پاکستان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کرانے میں کامیاب ہوگیا ہے اور امریکہ اُسے سراہا رہا ہے، دوسرے افغان طالبان امریکہ سے اپنے مطالبات منوا رہے ہیں، پھر سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر 17 فروری 2019ء کو آئے۔ ہم اس صورتِ حال میں پاکستان کے خلاف فضا تو قائم نہیں کرنا چاہتے تھے، ترقی کے لئے پاکستان کو امن چاہئے، یہ پاکستان کے خلاف مکمل سازش ہے، پھر ان دھماکوں کے وقت کا جو تعین کیا گیا ہے اس کا مستفیض بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی ہیں، پاکستان نہیں، کیونکہ 2019ء کے عام انتخابات جیتنے کے لئے اُن کے پاس زاد راہ نہیں ہے، وہ اس حملہ کو بنیاد بنا کر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں، اس کے علاوہ 18 فروری کو بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کی عالمی عدالت میں مقدمہ شروع ہو رہا ہے، جس میں 18 فروری کو بھارت نے اپنی معروضات پیش کی، جبکہ 19 فروری کو پاکستان اپنا کیس عالمی عدالت کے سامنے لایا اور پھر 20 فروری کو بھارتی وکیل نے دلائل دیئے اور 21 فروری کو پاکستان کو اس کا جواب دیا، کیس کو بگاڑنے کی بھی اس حملے کے ذریعے کوشش کی گئی ہے، تیسرے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات پاکستان میں ہونے تھے، جس سے افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے، جو پاکستان اور خطے کے مفاد میں ہے، مگر صرف بھارت ایک ایسا ملک ہے، جو افغانستان اور طالبان کے مذاکرات کے خلاف ہے۔ وہ افغانستان میں امن نہیں چاہتا، بلکہ پاکستان کی مغربی سرحد پر اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو مشرقی اور مغربی سرحدوں سے سینڈوچ کیا جاسکے۔ بھارت کا ناپاک منصوبہ ناکام ہوتا نظر آرہا ہے، اس لئے یہ خودکش حملہ کرایا گیا، تاکہ رنگ میں بھنگ ڈالی جائے۔ اس لئے امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ نے بھی مشورہ دیا ہے کہ دونوں ممالک باہمی مفاہمت سے معاملات طے کریں۔ اس پر بھارت کے بہت بڑے تجزیہ کار بہادرا کمار نے کہا کہ مودی کی پاکستان کے خلاف دشمنی مکمل طور پر فیل ہوگئی ہے، بلکہ یہ پالیسی بھارت کے لئے نقصان دہ ہو رہی ہے۔ پاکستان سے بات چیت بند کرکے بھارتی حکومت نے اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماری ہے اور حد تو یہ ہے کہ وہ بیک ڈور پالیسی تک موجود نہیں تھی، جو رمیش کمار کے ذریعے شروع ہوئی ہے، کیونکہ دُنیا میں رواج ہے کہ اگر دونوں ممالک تنائو کا شکار ہوں تو وہ خاموش سفارت کاری کے ذریعے کشیدگی کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن بھارت نے اپنے آپ کو بند گلی میں بند کر رکھا تھا، جس میں اب ایک کھڑکی کھولی ہے۔ یہ اچھا ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ملک ہیں، اگر کوئی مہم جوئی ہوئی تو وہ انسانیت دشمن ہوگی، ایک غلطی ایٹمی جنگ پر لے جائے گی، جو کسی کے مفاد میں نہیں ہے، اس میں عام انسان کو نقصان پہنچے گا۔ بھارت اکثر یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ ایک بڑا ملک ہے تو اُس کو یہ بات جان لینا چاہئے کہ بڑا ملک ہونے کی وجہ سے اُس کے کمزور پہلو زیادہ ہیں اور کسی دوسرے ملک کو زیادہ اہداف مل جاتے ہیں، جس سے اس ملک کا زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ بھارت نے کشمیر میں بھی جو پالیسی وضع کی ہے، وہ اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے، اس نے کشمیر میں گورنر راج لگا دیا ہے اور کشمیریوں کو حکومت سے یکسر الگ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے سارے کشمیری جو کبھی بھارت کے ساتھ تھے، وہ بھی خلاف ہوگئے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ کشمیر اور سابق بھارتی یونین وزیر فاروق عبداللہ نے بھارت نے اِس الزام کو یکسر مسترد کردیا ہے کہ 14 فروری 2019ء کو ہونے والے واقعہ میں پاکستان ملوث ہے، اس نے کہا کہ کشمیر کا بچہ بچہ بھارت مخالف ہے، اس لئے یہ حملہ اگر ہوا تو کشمیریوں کی طرف سے ہوا ، جبکہ ایک سکھ وکیل نے کہا ہے کہ 1949ء کے جنیوا کنونشن پروٹوکول 1 اور 2 کے تحت یہ حملہ عالمی قانون کے عین مطابق ہے، کیونکہ ایک متحارب گروپ دوسرے مسلح گروپ حملہ آور ہو۔ تاہم ان دلائل اور قانونی بحث کے بعد مگر واقعات، قرائن اور شواہد کی روشنی میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ مودی سرکار کا گھنائونا کھیل ہے کہ اس نے یہ حملہ کرا دیا، پاکستان میں یہ گمان ہے کہ وہ شاید 9/11 جیسا واقعہ اپنے ملک میں کرا کر فضا کو اور خراب کر دے۔ جیسا کہ دیکھا گیا کہ ایک طرف ایران کے فوجی پاسداران پر حملہ ہوا، دوسرا حملہ بھارتی فوج پر ہوا تیسرا حملہ اشرف غنی نے طالبان پر کر دیا، جس میں خبر آئی ہے حال ہی میں رہا ہونے والے طالبان کمانڈر حمد اللہ مارے گئے ہیں۔ ان تمام واقعات سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ امریکہ، بھارت، افغانستان کی موجودہ حکومت پاکستان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بھارتی مشیر برائے سلامتی امور اجیت ڈول نے 2014ء میں کہا تھا کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری نہیں بننے دیں گے، چاہے اس کے لئے انہیں داعش کی مدد کیوں نہ لینا پڑے۔ ایسی صورتِ حال میں اس بات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے لئے تین دن کے اندر اندر یہ حالات پیدا کئے گئے۔ جواباً پاکستان نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور انتہائی تدبر کے ساتھ صورتِ حال کو دُنیا کے سامنے پیش کیا، جسے ایک ایٹمی ملک کا پر اعتماد اور ذمہ درانہ انداز کہا جاسکتا ہے اور اس لئے بھی کہ ترقی و خوشحالی کی طرف بڑھتے قدم کے وقت میں پاکستان کو اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف کسی کارروائی کی ضرورت نہیں تھی۔ بھارت جو مہم جوئی کر رہا ہے، اس سے وہ جنوبی ایشیا ہی نہیں، بلکہ ساری انسانیت کو خطرے میں ڈال رہا ہے، ایک ایسے غیرذمہ دار شخص کے ہاتھوں میں بھارت کی عنان حکومت ہے جو اپنا ایک گھر کو نہیں چلا جا سکا اور نہ قائم رکھ سکا، وہ ایک جنونی شخص ہے، جو انسانیت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ ’’را‘‘ کے سابق سربراہ امرجیت دلت نے متنبہ کیا ہے کہ جنگ تفریح نہیں اور مشورہ دیا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ سفارتکاری کا راستہ اختیار کرے۔ یہی بات دُنیا کے سارے ممالک کہہ رہے ہیں کہ بات چیت کے طریقے سے معاملات حل کئے جائیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ان کو مل کر تحقیقات کرنے پیشکش کی ہے، اسے قبول کرنا چاہئے، کیونکہ دونوں ایٹمی ممالک ہیں اور اگر جنگ ہوئی تو پھر کچھ باقی نہیں بچے گا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More