فضا میں تیرتے امارات ایئر لائن کا دیوہیکل طیارہ بوئنگ 777 زمین چھونے کی تیاری کر رہا تھا، جہاز میں موجود مختلف براعظموں کی دراز قامت حسینائیں اونگھتے مسافروں کو حفاظتی بیلٹ باندھنے کی یاد دہانی کروا رہی تھیں۔ سیلانی جاگ رہا تھا، اس نے کسی یاددہانی سے پہلے ہی سیٹ بیلٹ باندھ لی تھی، اس لئے اس کی جانب کوئی فضائی میزبان متوجہ نہیں ہوئی۔ طیارے کے کپتان نے ہوائی اڈے کا ایک چکر لگایا اور پھر بوئنگ 777 سمندر کنارے ریت پر آباد دبئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ کا رن وے چھونے کے لئے کسی عقاب کی طرح تیزی سے اترنے لگا۔ کچھ ہی ساعتوں میں طیارے کے ٹائروں نے دبئی کی زمین کو چھوا اور طیارہ تیزی سے دوڑتا ہوا ایئرپورٹ کی عمارت کی طرف بڑھنے لگا، پھر بتدریج اس کی رفتار کم ہوتی گئی اور بالآخر طیارہ کسی دوڑ میں شریک گھوڑے کی طرح ہانپتا ہوا ایک جگہ رک گیا۔ خودکار سرنگ نے کسی جونک کی طرح طیارے کے دروازے سے منہ لگا دیا۔ گوری، کالی، زرد، چپٹی فضائی میزبانیں روکھی پھیکی پیشہ ورانہ مسکان سے الوداع کہنے کے لئے دروازوں پر کھڑی ہوگئیں۔ امارات ایئر لائن نے دنیا کی ہر بڑی زبان بولنے والی حسیناؤں کو فضائی میزبان بنا رکھا ہے۔ ایک ہی طیارے میں ایک طرف کوئی دراز قامت گوری مسافروں کو ناشتہ دیتے ہوئے دکھائی دے گی تو دوسری جانب چمکتا ہوا آبنوسی رنگ لئے کوئی افریقی حسینہ اپنے سفید دانتوں کی نمائش کرتے ملے گی۔ اسی طیارے میں چنی آنکھوں اور چپٹی ناک والی فلپائینی حسینہ بھی مل جائے گی اور اپنے پاکستان بھارت کی گندمی رنگت اور سیاہ زلفوں والی حسینہ بھی دکھائی دے جائے گی۔ امارات ایئر لائن 270 طیاروں کے ساتھ دنیا کے150 مقامات تک پہنچنے والی بڑی ایئر لائن ہے۔ 1985ء اکتوبر میں قائم ہونے والی امارات ایئر لائن کو اپنی پی آئی اے نے انگلی پکڑ کر اڑنا سکھایا تھا۔ تب پی آئی اے دنیا کی ممتاز ترین فضائی کمپنیوں میں سے تھی۔ کیا گورے اور کیا کالے، کوئی اس پر رشک کرتا تھا اور کوئی حسد۔ اور ایک آج کی پی آئی اے ہے، جس پر کسی کو افسوس ہوتا ہے اور کوئی ہنستا ہے۔
سیلانی اپنے ساتھیوں کے ساتھ طیارے کے دروازے اور ہوائی اڈے کے درمیان پل کا کام دینے والی سرنگ نما راہداری سے ہوتا ہوا دبئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر آگیا، صبح سویرے کا وقت تھا، اس لئے ایئرپورٹ پر رش نہیں تھا، وہ چمکتے ہوئے فرش پر آگے بڑھتے گیا، یہاں سب سے پہلے سیلانی کی نگاہ جس پر پڑی وہ کوئی اماراتی عرب نہیں، بلکہ چپٹی ناک والا فلپائنی نوجوان تھا، انہیں یہاں فیلیپینو کہا جاتا ہے، خدمت گاروں کی وردی میں ملبوس اس فلپائینی نوجوان کے بعد بیت الخلاء کی صفائی ستھرائی پر مامور نوجوان بھی اسی نقوش کا تھا، اس کے بعد جگہ جگہ فلیپینو ہی ملے۔ ایک تو یہ اپنے نقوش کی وجہ سے مختلف اور نمایاں ہوتے ہیں، اوپر سے یہ ہیں بھی اس کثیر تعداد میں کہ بعض اوقات بندہ شک میں پڑ جاتا ہے کہ وہ دبئی میں ہے یا منیلا میں۔
امیگریشن کے مرحلے سے گزر کر سیلانی ساتھیوں کے ساتھ باہر آیا تو یہاں مولانا طارق جمیل صاحب کی شباہت والا نوجوان مسکراتا ہوا ملا۔ یہ پاک ترک اخوت کونسل کے ڈائریکٹر بزنس فورم برادرم سید واجد علی تھے۔ سیلانی کا یہ سفر پاک ترک اخوت کونسل کے ساتھیوں کے ساتھ تھا۔ جامعۃ الرشید کے مفتی ابولبابہ صاحب، کونسل کے چیئرمین اویس قرنی پاشا، ڈپٹی ڈائریکٹر سلمان اشرف صاحب اور کونسل ہی کے اہم رکن عدنان عبد القادر ساتھ تھے۔ واجد بھائی نے پرجوش معانقوں سے مہمانوں کا استقبال کیا اور سیلانی اور عبد القادر بھائی کو چھوڑ کر باقی تین ساتھیوں کو لے کر روانہ ہوگئے۔ سیلانی کو یہ کچھ عجیب سا لگا۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ جب گاڑی موجود ہے تو ٹیکسی کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ اس ضرورت کا علم سیلانی کو بعد میں اس وقت ہوا جب واجد بھائی نے بتایا کہ دبئی میں پاکستان کی طرح کی ’’آزادی‘‘ نہیں ہے، یہاں اگر کار میں پانچ افراد کی گنجائش ہے تو چھٹے کو بٹھانے پر ’’مخالفہ‘‘ تھما دیا جاتا ہے۔ سچ میں دبئی آکر اپنے وطن کی قدر آئی، جو آزادی پاکستان میں ہے، وہ دنیا کے کم ہی ممالک میں ہے،
جہاں جی چاہا گاڑی کھڑی کر کے ازار بند ڈھیلا کیا اور کسی بھی دیوار کی طرف اکڑوں بیٹھ کر ہلکے ہوگئے۔ روڈ پر ذرا ٹریفک جام ملا تو سرکس کے کرتب دکھاتے ہوئے دو پہئے فٹ پاتھ پر چڑھائے اور ایکسیلیٹر دبا دیا۔ یہاں اس قسم کے کرتبوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ غلط پارکنگ پر ڈیڑھ سو درہم یعنی پاکستانی کرنسی میں پانچ ہزار سات سو روپے کا جرمانہ لگ چکا ہوتا ہے۔ سگنل توڑنے کا نتیجہ خوفناک مخالفے کی صورت میں نکلتا ہے۔ کم از کم ایک ہزار درہم یعنی پاکستانی روپوں میں اڑتیس ہزار روپے آپ کی جیب سے نکل جاتے ہیں اور لائسنس پر کچھ بلیک پوئنٹس بھی دے دیئے جاتے ہیں۔ یہاں لائسنس کے ساتھ چوبیس پوائنٹس دیئے جاتے ہیں۔ خطرناک خلاف ورزی پر جتنے بلیک پوائنٹس دیئے جاتے ہیں، یہ اتنے ہی کم ہو جاتے ہیں۔ بلیک پوائنٹس ملنے پر بھی ڈرائیور نہ سدھرے تو اس کا لائسنس ایک سال کے لئے کینسل کر دیا جاتا ہے۔
واجد بھائی تین مہمانوں کو لے کر شارجہ کی طرف بڑھ گئے اور سیلانی عدنان عبد القادر بھائی کے ساتھ ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ ٹیکسی ڈرائیور کا تعلق کیرالہ بھارت سے تھا۔ دبئی میں فلپائنیوں کے بعد بھارتی، شیخوں کی پسندیدہ قوم ہیں۔ اس کی وجہ ان کا yes sir ہونا ہے۔ یہ کم اجرت پر دستیاب ہوتے ہیں۔ چار گالیاں بھی کھالیں تو پیشانی پر بل نہیں پڑتے اور خوشامد کے فن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی ان کے خوب کام آتی ہے۔
آرام دہ ٹیکسی دبئی کی ہموار سڑکوں پر ٹریفک کا حصہ بنی۔ شارجہ کے ایک ہوٹل میں پہنچ کر رک گئی۔ عدنان عبد القادر بھائی نے کراچی روانگی سے پہلے ہی یہاں ایک اپارٹمنٹ بک کرالیا تھا۔ ہوٹل کے استقبالئے پر فلپائنی خاتون نے سیلانی اور ساتھیوں کا استقبال کیا اور ضروری اندراج کے بعد انہیں ایک کارڈ تھما دیا۔ اپارٹمنٹ تیسری منزل پر تھا۔ اپارٹمنٹ میں پہنچتے ہی سیلانی نے تو بیگ ایک طرف رکھا اور غسل خانے میں گھس گیا۔ گرم پانی سے غسل کے بعد طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی۔ گھنٹے بھر بعد واجد علی بھائی مفتی ابولبابہ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ بمعہ ناشتہ لئے آگئے۔ ناشتے میں اونٹنی کا دودھ اور اونٹ ہی کے گوشت کا ہریسہ تھا۔ روکھا پھیکا ہریسہ اپنے مزاج کا نہ تھا، اس لئے سیلانی زیادہ نہ کھا سکا۔ ناشتے کے بعد آرام کا فیصلہ ہوا اور طے یہ ہوا کہ ظہر کے بعد دبئی ورلڈ ٹریڈ سینٹر جایا جائے گا۔ ظہر کے بعد قافلہ کنکریٹ کے شہر دبئی کی جانب روانہ ہوا۔ دبئی ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں گلف فوڈ کے نام سے بہت بڑی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سیلانی پاک ترک اخوت کونسل کے وفد کے ہمراہ ٹریڈ سینٹر پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کر سیلانی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ دنیا کا کون سا خطہ تھا، جس کے لوگ یہاں دکھائی نہ دے رہے ہوں۔ افریقہ کے تنومند حبشی بھی دکھائی دے رہے تھے اور ستنواں ناک، سنہری بالوں والے انگریز بھی، جبہ اور عربی رومال شماخ باندھے عرب بھی اور گندمی رنگ والے برصغیر پاک و ہند کے لوگ بھی۔ سب اپنا اپنا سودا لئے بیٹھے تھے۔ دبئی ٹریڈ سینٹر اتنا بڑا ہے کہ ایک دن میں اسے گھومنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس کے اکیس ہال ہیں۔ 1.3 ملین مربع فٹ کے رقبے کی اس نمائش گاہ میں ہر ماہ تین چار نمائشیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس بار نمائش میں 120 ممالک کی پانچ ہزار کمپنیوں نے اسٹال لگائے۔ بھارت کے 315 اور پاکستان کے 95 اسٹال تھے۔ نمائش میں بھارتی نمایاں رہے۔ خلیج کی منڈی ویسے بھی ان کے لئے سونے کی کان ہے۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ ان کے مقابلے میں پاکستانی مصنوعات کے اسٹال کچھ خاص نہیں تھے، حالاںکہ ہم دنیا کا بہترین چاول اگاتے ہیں، ہمارے کھیت بہترین اجناس دیتے ہیں، ہمارے باغوں میں دنیا کا بہترین آم، مالٹا، کینو، خوبانی، آڑو، سیب، انگوراور چتری کیلا ہوتا ہے، لیکن سیلانی کو وہاں کہیں سرگودھے کا کینو دکھائی دیا، نہ خان پور کا ریڈپلڈ مالٹا۔
پاک ترک اخوت کونسل کا وفد یہاں کچھ لین دین کرنے نہیں آیا تھا۔ یہ ترک تاجروں، صنعت کاروں سے ملنے اور ان سے متعارف ہونے آیا تھا۔ وفد ترکوں کے ہال کی طرف بڑھ گیا۔ یہ کونسل پاکستان اور ترکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اخوت کونسل پاکستان میں ترک اور پاکستانی صنعت کاروں کے لئے ایک نمائش کا پروگرام بنا رہی ہے تاکہ دنیا کے یہ دو بڑے مسلم ملک قریب آئیں اور آپس کی تجارت کو بڑھائیں۔ اخوت کونسل کے بزنس فورم کے ڈائریکٹر واجد علی ترکوں کے اسٹالز پر جا جا کر ان سے ملنے اور اخوت کونسل کا تعارف کرانے لگے۔ ترک ویسے ہی پاکستان کو احترام کی نظر سے دیکھتے اور پاکستانیوں کو کاردیش یعنی بھائی کہتے ہیں۔ اخوت کونسل والے جس جس اسٹال پر گئے، سب ان سے بڑی محبت سے ملے اور توجہ سے ان کی بات سنی۔ سیلانی خاموش مبصر کے طور پر ان کے ساتھ تھا۔ وہ اخوت کونسل والوں کے جذبے سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکا۔ ان میں نوجوان اویس قرنی بھی تھے اور تریسٹھ برس کے سفید ریش سلمان اشرف صاحب بھی۔ میمنوں کے لئے مشہور ہے کہ وہ اپنے فائدے کے بغیر سلام بھی نہیں کرتے، لیکن عدنان عبد القادر بھائی اس فارمولے کو غلط کئے دے رہے تھے۔ یہ سب وفد کی صورت میں ایک ایک اسٹال پر جاتے، پاکستان کا تعارف کراتے، انہیں ترغیب دیتے اور بتاتے کہ پاکستان میں آپ کے لئے اور پاکستانیوں کے دلوں میں آپ کے لئے بڑی جگہ ہے۔ وہاں جب امریکی انگریز بن کباب بیچنے اور خمیرے پراٹھوں والے پیزے کے نام پر کمائی کر رہے ہیں تو اپنے ترک بھائیوں کے سو فیصد حلال ریسٹورنٹ تو سب کو پیچھے چھوڑ دیں گے، انہیں یہاں آکر سرمایہ کاری کرنی چاہئے، انہیں اچھا منافع اور پاکستانیوں کو خالص حلال چیزیں ملیں گی۔
ترکوں نے گلف فوڈ میں ٹھیک ٹھاک ماحول بنایا ہوا تھا۔ 171 ترک تاجر اور صنعت کار اپنی مصنوعات کے ساتھ موجود تھے۔ ان سب تک پہنچنے اور اپنا پیغام دینے کے لئے خاصا وقت چاہئے تھا۔ سیلانی نے اپنی چھنگلی انگلی دکھا کر انہیں مصروف چھوڑا اور بیت الخلاء کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ یہ اچھا خاصا مشکل کام ثابت ہو رہا تھا۔ وہ پوچھتے پاچھتے آگے بڑھا اور پھر ٹھٹک گیا۔ سامنے ’’پڑوسی‘‘ ملک کے پویلین میں ماتھوں پر تلک لگائے نوجوان لڑکیاں اور لڑکے موجود تھے۔ ایک جگہ مٹھائی چکھائی جا رہی تھی۔ سیلانی کچھ سوچ کر قریب چلا گیا۔ وہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ بھارتی پاکستانیوں سے کیسے ملتے ہیں۔ کس رویئے کا اظہار کرتے ہیں۔ مٹھائی والے اسٹال پر ایک خوبصورت سی لڑکی آنے والوں کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کررہی تھی۔ اس نے سیلانی کو بھی ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا۔ سیلانی نے سر کے اشارے سے جواب دیا، لیکن ساتھ کھڑے نوجوان نے بتیسی کی بھرپور نمائش کر ڈالی اور لڑکی سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ اردو میں ہونے والی گفتگو سے لڑکی کو اندازہ ہوگیا کہ اس کے سامنے پاکستانی کھڑے ہیں۔ وہ نوجوان مسکا لگاتے ہوئے کہنے لگا ’’واہ کیا ذائقہ ہے، انڈین مٹھائیوں کا جواب نہیں، زبردست کاش یہ پاکستان میں بھی مل سکتیں۔‘‘
اس کی اس خواہش پر لڑکی نے طنزیہ انداز میں ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا ’’ہجاروں کھواہشیں ایسی… کچھ باتوں میں آپ کا بھی جواب نہیں ہے، ہم ابھی تک جواب تلاش کر رہے ہیں‘‘ اس طنز پر اس نوجوان نے ٹھنڈی سانس بھرکر کہا ’’پتہ نہیں، ہم اچھے کب بنیں گے۔‘‘
وہ فوراً کہنے لگی: ’’اسی بات کا تو ہمیں بھی انتظار ہے کہ آپ کب اچھا بنتے ہیں۔‘‘ اب سیلانی سے رہا نہیں گیا۔ وہ بیچ میں ٹپک پڑا ’’ایک کا اچھا رہنے کے لئے دوسرے کا بھی اچھا رہنا ضروری ہے، وہ لطیفہ تو سنا ہی ہوگا ناں کہ ایک بندوق بردار کسان اپنے پڑوسی کی تعریف کئے جا رہا تھا، جس پر سامنے والے نے کہا وہ اتنا اچھا ہے تو آپ نے بندوق کیوں اٹھا رکھی ہے، اس پر اس نے جواب دیا اسے اچھا بنائے رکھنے کے لئے بندوق ضروری ہے۔‘‘ سیلانی کی بات پر اس کا منہ بن گیا، لیکن اس نے اسی طنزیہ مسکراہٹ سے کہا ’’ہم اچھے ہیں یا کھود کش حملے کرنے والے یہ تو دنیا بھی جانتی ہے۔‘‘
’’اور دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ خودکش حملہ کرنے والا کون تھا اور اس کا مطالبہ کیا تھا، وہ وہی کچھ مانگ رہا تھا، جو نہرو جی نے دینے کا وعدہ کیا تھا۔‘‘ سیلانی اور اس لڑکی میں نرم لفظوں کے ساتھ بحث جاری تھی، لیکن اسٹال میں دوسری جانب بیٹھے ادھیڑ عمر شخص نے بھانپ لیا اور چلتے ہوئے آگیا۔
’’نرملا! کیا بات ہے، کوئی مسئلہ ہے؟‘‘ جواب میں نرملا نے انگریزی میں بتایا کہ یہ پاکستان سے ہیں، بس اتنا سننا تھا کہ اس صاحب نے نرملا سے انگریزی میں کہا:
"dont waste the time” یہ کہہ کر وہ سیلانی سے کہنے لگے: ’’سر! آپ سے بات کرکے آپ کا بھی وقت جایا ہوگا اور ہمارا بھی جایا ہو رہا ہے، پھائدہ کوئی نہیں ہے، ہمارا آپس کا ٹریڈ ہی نہیں بنتا۔‘‘ سیلانی نے بھی کاندھے اچکائے اور آگے بڑھ گیا۔
نمائش کے دوسرے دن سیلانی کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے دبئی شاپنگ مال جانا پڑا۔ واجد بھائی کے مشورے پر سیلانی نے دبئی میٹرو کا رخ کیا۔ اس روز نمائش کا وقت ختم ہو چکا تھا اور ہزاروں لوگ بسوں، گاڑیوں اور میٹرو کا رخ کر رہے تھے۔ ان میں سیلانی بھی تھا اور امیت کنائے بھی۔ امیت دہلی کا رہائشی ہے اور جوس بنانے والی کسی کمپنی میں ملازم ہے۔ اس کے لئے بھی دبئی نیا تھا اور سیلانی کے لئے بھی۔ اس نے سیلانی سے میٹرو اسٹیشن کا راستہ پوچھا تھا۔ جواب میں سیلانی نے اسے ساتھ ڈھونڈنے کی پیشکش کی اور وہ دونوں چل پڑے۔ وہ پوچھ پاچھ کر اسٹیشن پر پہنچ گئے اور ٹکٹ لینے والوں کی لمبی قطار میں کھڑے ہوگئے۔ اس اثنا میں دونوں میں اچھی خاصی شناسائی ہوگئی تھی۔ امیت کو سیلانی کے پاکستانی اور سیلانی کو اس کے بھارتی ہونے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ ہلکی پھلکی بات چیت جلد ہی دونوں دیسوں کے کشیدہ تعلقات پر آگئی۔ میٹرو کی قطار میں امیت کہنے لگا ’’آپ صحافی ہو، یقیننا اپنے ملک کی طرفداری کرو گے، لیکن میں پھر بھی پوچھنا چاہوں گا کہ ہم دونوں ملکوں کو جنگ سے کیا ملے گا؟‘‘
’’یہی سوال میرا اور سمجھیں ہر پاکستانی کا ہے، ہمیں مل بیٹھ کر اپنے مسئلے حل کرنے چاہئیں۔‘‘
’’کون سے مسئلے؟‘‘
’’سب سے بڑا مسئلہ تو کشمیر کا ہے۔‘‘ اس پر امیت نے کہنے لگا یہ تو پاکستان کا بنایا ہوا مسئلہ ہے، آپ لوگ گھس بیٹھ نہ کریں تو ٹینشن کیوں ہوگی؟‘‘
’’ابھی جس نے پلوامہ پر خود کش حملہ کیا، کیا وہ پاکستانی تھا؟ وہ اسی کشمیر کا تھا، دو تین سال پہلے آپ کے فوجیوں نے اس کی ناک رگڑوائی تھی، وہ انتقاماً مجاہدین سے جا ملا تھا، آپ کشمیر کو اس کا حق دے دیں، جو نہرو جی نے بھی مانا تھا، مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘
’’آپ کا یہ کہنا ہے کہ کاشمیر پاکستان کو دے دیں؟‘‘
’’کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کو کرنے دیں، بس اتنی سی بات ہے اور ابھی جو کچھ ہو رہا ہے، آپ اسے بی جی پی لائن کیوں نہیں سمجھتے، نریندرا مودی پاکستان کارڈ کھیل کر وہ مخصوص فضا بنا رہا ہے تاکہ دوبارہ وزیر اعظم بنے۔‘‘ امیت پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ کشمیر میں آزادی کی نہیں، پاکستان کی شرارت چل رہی ہے۔ اس کے پاس وہی معلومات تھیں، جو اس کا میڈیا اس کی آنکھوں اور کانوں کے ذریعے اس کے دماغ میں پہنچا رہا تھا۔ اس کی زبان پر اسی قسم کے سوالات اٹھنے تھے، وہ دبئی شاپنگ مال تک سیلانی کے ساتھ رہا اور قائل ہوا نہ قائل کر سکا۔ بھارتی میڈیا نے بھارتیوں کے دل و دماغ میں پاکستان کے خلاف شعلے بھڑکا رکھے ہیں۔ وہ راہ چلتے کی بات چیت سے کیسے بجھ سکتے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے پورے بھارت کو ایک مخصوص کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ جنگ کی باتیں یوں ہو رہی ہیں، جیسے پاکستانی پولٹری فارم کی مرغیاں ہیں، وہ آئیں گے اور کاٹتے چلے جائیں گے۔ ایک طرف بھارتیوں کا اشتعال اور نفرت ہے اور دوسری طرف پاکستانی ہیں، جنہیں فکر ہے تو پی ایس ایل کی۔ اب اسے مستی کہا جائے، خود اعتمادی یا بے خودی؟ سیلانی کوئی نام نہیں دے سکتا، لیکن یہ بھی ایک جواب ہے کہ تمہاری دھمکیاں ہمارے لئے کسی بیمار کے ہذیان سے زیادہ نہیں۔ امیت سے باتوں کا مزہ آرہا تھا، لیکن اس نے کہیں اور جانا تھا اور سیلانی نے کسی اور طرف۔ اس نے سیلانی سے ہاتھ ملا کر انگریز ی میں Wish you good luck کہا۔ جواب میں سیلانی نے بھی انگوٹھا دکھا کر Thump Up کیا اور دبئی شاپنگ مال کے خودکار زینے کی طرف بڑھتے ہوئے دوسرے خود کار زینے پر کھڑے ’’بیمار پڑوسی‘‘ کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭
Next Post