حضرت سعید بن مسیّبؒ
’’حضرت سعید بن مسیّبؒ فتویٰ دیا کرتے تھے جب کہ صحابہ کرامؓ بھی حیات تھے۔‘‘ (مورخین)
مسجد نبویؐ میں علمی حلقے
امیر المؤمنین عبد الملک بن مروان نے حج اور مدینہ منورہ کی زیارت اور حضور اقدسؐ پر درود و سلام پیش کرنے کے لیے سفر کا ارادہ کیا، جب ذی قعدہ کے مہینہ کا آغاز ہوا تو امیر المؤمنین بنو امیہ کے معزز سرداروں، وزیروں اور چند شہزادوں کے ساتھ دمشق سے سرزمین حجاز کی طرف روانہ ہوئے۔
پہلے مرحلہ میں یہ قافلہ دمشق سے مدینہ منورہ کی طرف خوشیوں کے ساتھ روانہ ہوا، نہ تو بہت تیز نہ بہت آہستہ بلکہ درمیانی رفتار کے ساتھ۔ یہ شاہی قافلہ جب کسی منزل پر پڑاؤ ڈالتا، تو خیمے نصب کردئیے جاتے، بستر بچھا دئیے جاتے، علم کی اور دین کی باتوں کی مجلسیں منعقد کی جاتیں، تاکہ دینی لحاظ سے سمجھ بوجھ میں اضافہ ہو اور دلوں کو حکمت اور ایمان کی باتوں سے روشن کیا جائے۔
امیر المؤمنین نے مدینہ منورہ پہنچتے ہی حرم نبویؐ کا ارادہ کیا اور سید المرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ للعالمینؐ کے روضہ اقدس پر حاضری دے کر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ جس سے انہیں اطمینان، سرور اور دلی ٹھنڈک نصیب ہوئی، جو اس سے پہلے نصیب نہ ہوئی تھی۔ لہٰذا انہوں نے واپسی کی تاریخ بدل کر مدینہ منورہ میں زیادہ دیر تک قیام کرنے کا ارادہ کر لیا۔
مدینہ منورہ میں قیام کے دوران، ان علمی حلقوں نے انہیں بہت زیادہ متاثر کیا جن سے مسجد نبویؐ ان دنوں آباد تھی اور حضرات تابعینؒ میں سے بڑے بڑے علماء ان حلقوں میں اس طرح چمکتے دمکتے دکھائی دیتے تھے، جس طرح آسمان پر تارے جگمگاتے ہیں۔
ایک طرف حضرت عروہ بن زبیرؒ کا علمی حلقہ علم وعمل میں مصروف ہے، تو دوسری طرف حضرت سعید بن مسیّبؒ کا علمی حلقہ لگا ہوا ہے۔ تعلیم ہو رہی ہے، ہر مسلمان دین سیکھ رہا ہے اور پھر اس کو لے کر اپنے اپنے قبیلوں میں جاکر دوسروں کو سکھا رہا ہے۔
اسی طرح حضرت ابن عتبہؒ اپنے علمی حلقے میں مشکل مسائل کے حل کرنے میں منہمک دکھائی دیتے ہیں، کیسا خوبصورت منظر ہے، کیسا دل کش ماحول ہے، جی چاہتا ہے کہ اس ماحول میں گم ہو جائیں اور یہاں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہ دے۔ کاش دوبارہ یہ حلقے ساری دنیا کی ساری مسجدوں میں زندہ ہو جائیں اور رواج پا جائیں، مسلمانوں کی ہر مسجد صبح سے شام تک آباد ہو، مسجد کے آس پاس رہنے والے مسجد کے ماحول سے اپنا دین سیکھ رہے ہوں، مسجد کے آس پاس رہنے والے جتنے لوگ ہیں وہ اپنے کاروبار پر جانے سے پہلے مسجد میں جاکر اس کاروبار سے متعلق دینی احکام سیکھ رہے ہوں، غرض ہر شعبہ کا دین لوگ سیکھ رہے ہوں اور خود بھی اس پر عمل کر رہے ہوں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے رہے ہوں۔
حضرت سعیدؒ کی بے نیازی
ایک دن امیر المؤمنین دوپہر کو سو کر اٹھے، طبیعت کچھ ناساز تھی، دربان کو آواز دی، ارے میسرہ! اس نے کہا: ’’امیر المؤمنین! حاضر ہوں۔‘‘
کہا: ’’ابھی مسجد نبویؐ میں جاؤ اور کسی عالم کو بلاؤ تاکہ وہ ہمیں کوئی دینی بات سنائیں کہ اس سے دل کو اطمینان حاصل ہو۔‘‘
میسرہ شاہی حکم پا کر سیدھا مسجد نبویؐ کی طرف گیا، وہاں پہنچ کر نظر دوڑائی تو اسے صرف ایک ہی علمی حلقہ دکھائی دیا، جس کے درمیان میں ایک عالم بیٹھے ہیں، جن کی عمر تقریباً ساٹھ سال سے زیادہ ہو چکی ہوگی، ان پر علماء جیسی سادگی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی بہت زیادہ عزت اور رعب ہے۔
میسرہ نے علمی حلقے سے تھوڑا دور کھڑے ہو کر ان بزرگ کو انگلی سے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ شیخ نے اس کی طرف جھانکا اور نہ ہی اس کی کوئی پروا کی، شاہی دربان نے تھوڑا قریب ہو کر کہا: آپ کو میں اشارے سے اپنی طرف بلا رہا ہوں، آپ توجہ نہیں فرما رہے۔ فرمایا: مجھے؟
کہا: جی ہاں۔ فرمایا: کیا کام ہے؟
دربان نے کہا: امیرالمؤمنین نیند سے بیدار ہوئے تو مجھے حکم دیا، جو کوئی اس وقت تجھے ایسا شخص نظر آئے، جو قصہ سنا کر میرا دل بہلادے تو اسے میرے پاس بلاؤ۔
شیخ نے فرمایا: جاؤ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو قصہ سنا کر دل بہلاتے ہوں۔
سرکاری دربان میسرہ نے کہا: امیرالمؤمنین ایک ایسے شخص کو بلا رہے ہیں جو ان کے پاس بیٹھ کر دین کی عالمانہ گفتگو کرے۔
شیخ نے کہا: جسے کوئی طلب ہو وہ خود چل کر آتا ہے، مسجد نبوی میں اس علمی حلقہ میں ہر شخص شامل ہو سکتا ہے۔ اس میں اگر امیر المؤمنین سائل بن کر شامل ہونا چاہیں تو یہ ہمارے لیے بڑی خوشی کی بات ہے، علم حاصل کرنے کے لیے چل کر آیا جاتا ہے، علم خود چل کر نہیں جایا کرتا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post