توحید سے تثلیث تک

0

سوال: میں حیران ہوں کہ آپ کے اندر اتنا بڑا اقدام کرنے کی جرأت کیسے پیدا ہوگئی؟
جواب: آپ کی بات درست ہے کہ امریکہ کے اس ماحول میں جہاں مادیت کا دور دورہ ہے اور عیش پرستی اور تفریح پسندی ہی کو زندگی کی معراج سمجھا جاتا ہے، وہاں اسلام قبول کرنا اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنا بے حد مشکل کام ہے۔ چنانچہ یہ فیصلہ کرنے سے پہلے میں نے ہزار بار سوچا کہ میرے والدین مجھ سے کیا سلوک کریں گے؟ میری تعلیم کا کیا بنے گا؟ اور میں اپنے حلقہ احباب میں کیسے زندہ رہوں گی؟ چنانچہ اس نوعیت کے خدشات نے مجھے بہت سخت پریشان کئے رکھا، مگر طویل اور گہرے غورو فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ایک وقتی اور عارضی پریشانی کے مقابلے میں جو اسلام قبول کرنے کے نتیجے میں پیش آسکتی تھی، مسلمان نہ ہونے کے نتائج ذہنی اور روحانی اعتبار سے زیادہ گھمبیر ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ میں نے خدا سے خوب دعائیں کیں، اس سے مدد اور اعانت طلب کی اور واقعی رب نے میری دعائیں سن لیں اور حیرت انگیز طور پر مجھے وہ ہمت اور حوصلہ عطا ہوا کہ میں اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے قابل ہوگئی۔
سوال: آپ تو ابھی نو عمر ہیں، آپ کا کیا خیال ہے، آپ واقعی اس فیصلے پر مستقل مزاجی سے قائم رہیں گی؟
جواب: مجھے یقین ہے کہ میں نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کے کیا ہے اور اس میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہو گی، اندازہ کریں کہ جب میں قبول اسلام کیلئے ایک مسجد میں گئی تو وہاں کے خطیب اور امام نے مجھ پر ذرا بھی دبائو نہیں ڈالا بلکہ مشورہ دیا کہ میں پہلے اسلام کے بارے میں خوب مطالعہ کرلوں اور اگر اس کے بارے میں اگر کوئی معمولی سا بھی اعتراض ہے تو سوالات کر کے اسے رفع کرلوں، پھر اسلام قبول کرلوں، اس کے برعکس جن دنوں میں کیتھولک مذہب کا مطالعہ کر رہی تھی، ایک مرتبہ میں کیتھولک چرچ میں گئی تو میرے جاننے والوں نے بہت اصرار کیا کہ میں اس مذہب کو فوراً قبول کرلوں۔
مجھے اس امر کا بھی اعتماد ہے کہ چونکہ میں نے بہت سے مذاہب کا مطالعہ کیا ہے اور میرے شعور نے انہیں مسترد کیا ہے، اس لئے میں نے جس مذہب کا انتخاب کیا ہے، وہ ہر لحاظ سے بہترین اور عقل کے عین کے مطابق ہے، اسی طرح میں یہ بھی بتاتی چلوں کہ میں نے دو سال سے زائد عرصے تک خوب جم کر اسلام اور اس کی تعلیمات کا مطالعہ کیا ہے اور بہت سے لوگوں سے اس کے بارے میں گفتگوئیں کی ہیں، اس لئے یہ سمجھ لیجئے کہ اسلام قبول کرنے میں نہ تو کسی جذباتیت اور عجلت پسندی کا عمل دخل ہے نہ اس سے کوئی دنیاوی مفاد وابستہ ہے، میں نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر لیا ہے اور میرے رب نے چاہا تو اس پر ثابت قدم رہوں گی۔
سوال: آپ نے اسلام قبول کرکے کیا حاصل کیا؟
جواب: اعداد و شمار کے حوالے سے یا دو اور دو چار کے انداز میں یہ بتانا کہ مسلمان ہو کر میں نے یہ اور یہ کچھ حاصل کیا ہے، خاصا مشکل ہے۔ تاہم اسلام قبول کرکے سب سے بڑی کامیابی یہ ملی کہ زندگی میں وقار اور ڈسپلن کا چلن پیدا ہوا، شب و روز کو مقصدیت نصیب ہوئی اور وہ خلا کی کیفیت جو دل و دماغ پر چھائی رہتی تھی، ختم ہوگئی، پھر یہ نعمت بھی کچھ کم نہیں کہ رب تعالیٰ پر ایمان اور اس کی اطاعت انسان کے اندرون کو سکون اور تزکیہ سے ملامال کرتے ہیں، روح میں رفعت اور مقاصد میں بلندی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور انسان سخت سے سخت حالات میں پریشانی اور مایوسی سے محفوظ رہتا ہے۔ خدا کا احسان ہے کہ اسلام کی تعلیمات پر عمل میری زندگی کے ہر پہلو کو مثبت طور پر تبدیل کیا۔ ان میں سے بعض تبدیلیاں واضح اور انقلابی نوعیت کی ہیں، جبکہ بعض کا تعلق ذہن اور ارادے سے ہے اور وہ اسی نسبت سے لطیف اور غیر نمایاں ہیں۔
سوال:آپ نے اپنے بالوں کو ڈھانپا ہوا ہے ، امریکہ کے عریاں ماحول میں آپ کو یہ کیسا لگتا ہے؟
جواب: اس ضمن میں میرے وہی احساسات ہیں جو ایک باعمل مسلمان عورت کے ہوسکتے ہیں، میں نے اپنا سر ڈھانپ کر دراصل اس ماحول کی آلودگیوں کے خلاف تحفظ حاصل کیا ہے اور عام عورت نیم برہنگی کی وجہ سے جس خوف اور سراسمیگی کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے، اس سے خاصی حد تک نجات پائی ہے۔ پھر میرا سر ڈھانپنا ایک قسم کا اعلان بھی ہے کہ میں مسلمان ہوں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں رب نے جو حکم دیا ہے، میں اس کی پیروی کر رہی ہوں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More