مولانا اشرف علی تھانویؒ کان پور میں مدرس تھے، انہوں نے مدرسے کے جلسے کے موقع پر اپنے استاد شیخ الہند محمود الحسنؒ کو بھی دعوت دی… مولانا اشرف علی تھانویؒ اس وقت نوجوان تھے، اس وقت ان کے دل میں یہ خواہش تھی کہ جب حضرت شیخ الہند صاحبؒ تقریر کریں گے تو یہاں کے لوگوں کو پتا چلے گا کہ ان کا علمی مقام کیا ہے۔
جلسہ منعقد ہوا۔ حضرت شیخ الہندؒ کی تقریر شروع ہوئی۔ کان پور کے کچھ علماء ایسے تھے، جو خاص طور پر بعض معاملات میں اختلاف رکھتے تھے۔ تقریر کے دوران ایسے کسی معاملے پر بات شروع ہوگئی، لیکن ابھی وہ علماء جلسے میں نہیں آئے تھے، جب حضرت شیخ الہندؒ کی تقریر شباب پر پہنچی اور اس مسئلے کا بیان ہونے لگا تو وہ علماء بھی تشریف لے آئے، جن کا مولانا تھانویؒ کو انتظار تھا، حضرت تھانویؒ اس موقع پر بہت خوش ہوئے کہ اب ان حضرات کو شیخ الہند کے علمی مقام کا پتا چلے گا، لیکن ہوا یہ کہ جونہی شیخ الہند نے ان علما کو دیکھا، انہوں نے تقریر کو مختصر کر کے فوراً ہی ختم کر دیا۔
مولانا فخر الحسن گنگوہیؒ بھی وہاں موجود تھے، انہوں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’حضرت ابھی تو تقریر کا اصل وقت آیا تھا اور آپ نے تقریر ختم کر دی۔‘‘
شیخ الہند نے جواب دیا: ’’ہاں! دراصل یہی خیال مجھے آ گیا تھا، حضرت علیؓ کا واقعہ مشہور ہے، کسی یہودی نے ان کے سامنے آنحضرتؐ کی شان میں کوئی گستاخی کر دی تھی، آپؓ اس پر چڑھ دوڑے اور اسے زمین پر گرا کر اس کے سینے پر سوار ہو گئے اور لگے اسے قتل کرنے۔ یہودی نے جب اپنے آپ کو بے بس پایا تو کھسیانہ ہو کر اس نے حضرت علیؓ کے روئے مبارک پر تھوک دیا … دیکھنے والوں نے دیکھا … حضرت علیؓ اسے چھوڑ کر فوراً الگ ہو گئے۔ کسی نے پوچھا: آپ نے یہ کیا کیا، اسے کیوں چھوڑ دیا؟
آپ نے بتایا: ’’میں پہلے آپؐ کی محبت کی بنیاد پر اس یہودی سے الجھا تھا، اس کے تھوکنے کے بعد کارروائی کرتا تو یہ بات اپنے نفس کو خوش کرنے کی ہوتی۔‘‘
گویا حضرت شیخ الہندؒ نے حضرت علیؓ کی یہ سنت تازہ کی تھی۔ مطلب یہی تھا کہ اب تک تو تقریر نیک نیتی پر مبنی تھی، خالص خدا کے لئے ہو رہی تھی، لیکن یہ خیال آنے کے بعد تقریر جاری رکھتا تو اپنا علم جتانے کے لئے ہوتی، اس لئے تقریر ختم کر دی۔
ایک روز میاں اصغر حسین شاہ صاحبؒ نے طلباء سے فرمایا:
’’آج ہماری گفتگو صرف عربی زبان میں ہوگی۔‘‘
کوئی یہ نہ پوچھ سکا کہ اس کی کیا وجہ ہے یا اس کی کیا ضرورت ہے… ادھر حضرت نے خود ہی عربی میں بات شروع کر دی … آپس میں عربی میں بات چیت کی عادت تو تھی نہیں، اس لئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوچ سوچ کر صرف ضروری باتیں کہی اور سنی گئیں … اردو میں جس طرح خوب باتیں ہوتی تھیں، اس طرح عربی میں نہ ہو سکیں … ایک منٹ کی بات میں بھی پانچ منٹ لگا دیتے تھے، اس روز جلد ہی فارغ ہو گئے۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ’’ زندگی کا ایک ایک منٹ قیمتی ہے، بلکہ بے بہا جواہرات ہیں، انہیں فضول کام یا کلام میں صرف کرنا بڑے بے عقلی ہے، میں جانتا تھا کہ عربی میں گفتگو کریں گے تو صرف ضروری کلام ہی ہو سکے گا، اسی لئے یہ کہا تھا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ہماری مثال اس دولت مند کی سی ہے، جس کے خزانے میں بے شمار سکے بھرے ہوئے ہوں اور وہ بے دریغ ان کو خرچ کر رہا ہے، مگر ایک وقت ایسا آتا ہے جب خزانہ خالی ہونے کے قریب ہے اور چند گنے چنے سکے رہ گئے ہیں تو اب وہ بہت دیکھ بھال کر خرچ کرتا ہے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post