پاکستان کی جانب سے بھارت کے دو طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر گرائے جانے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو چھوڑ کر وہاں کے تقریباً تمام سیاسی رہنما، معاشرتی حلقے اور ذرائع ابلاغ کے اکثر محب وطن اور ذمے دار بھارتی یہ کہنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا ماحول ختم ہونا چاہئے۔ جنگ و جدل کی انسانی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یہ کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ تباہی و بربادی کا ذریعہ ہے۔ بیجنگ میں روس، چین اور بھارت کے سہ فریقی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بالآخر یہ کہنا پڑا کہ بھارت تحمل اور ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید کشیدگی نہیں چاہتا، جنگ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔ دونوں ممالک کی سرحدوں پر کشیدگی سے پورے خطے میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے ملک کی روایتی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ الزام دوہرانا ضروری سمجھا کہ بھارتی فضائیہ کی پاکستان میں کارروائی کوئی فوجی حملہ نہیں تھا۔ اس حملے کا نشانہ فوجی تنصیبات نہیں، بلکہ دہشت گرد گروپ جیش محمد کا مرکز تھا۔ بھارت نے عالمی برادری کی مذمت اور لعن طعن کے بعد اپنا لہجہ کسی قدر تبدیل کیا ہے، لیکن اس کی وحشت اور درندگی میں کوئی کمی نظر نہیں آتی، جسے پاکستان اور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ جنگی جنون قرار دے رہے ہیں۔ وہ بھارت کی حالیہ جنگ جوئی کے دو اسباب بیان کرتے ہیں۔ ایک، اپریل کے عام انتخابات جن میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے انتہا پسند رائے دہندگان میں پاکستان مخالف جذبات بھڑکا کر آئندہ بھی وزارت عظمیٰ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ دوم، افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد بھارت کو وہاں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا اور خطے میں بھی اسے اپنی حیثیت کمزور ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف سکھوں سمیت بھارت کی اقلیتیں جنگ کی صورت میں پاکستان کی حمایت کا اعلان کر رہی ہیں تو دوسری طرف عالمی قوتیں بھارت پر دبائو ڈال رہی ہیں کہ وہ ہوش کے ناخن لے، ورنہ خطے ہی میں نہیں، ساری دنیا میں جنگ کے بادل منڈلانے لگیں گے۔ سعودی عرب، ترکی اور ایران کے علاوہ تقریباً تمام مسلم ممالک پاکستان کے مؤقف کی بھرپور تائید کرتے ہوئے بھارت کو متنبہ کر رہے ہیں کہ کوئی بڑی جنگ چھڑی تو پاکستان اکیلا نہیں ہوگا، بلکہ سارے دوست ملک اس کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ ستاون مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی نے بھی کھل کر بھارت کی مذمت کی اور پاکستان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، جبکہ چین نے تو ہمیشہ پاکستان کی غیر مشروط حمایت کی اور ہر مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ افغانستان میں امریکا کی کٹھ پتلی حکومتوں نے اپنے ملک میں بھارت کی حوصلہ افزائی کی، لیکن اب ان حکومتوں کا چراغ بھی امریکی تیل نکلنے کے بعد گُل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آئندہ افغانستان میں جو لوگ عوام کی بھرپور تائید سے برسراقتدار آنے والے ہیں وہ کٹر بت شکن ہیں، لہٰذا بھارت کو ان سے اپنے حق میں کسی خیر کی امید نہیں ہے۔
حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے پاکستان کو افغان باشندوں کا دوسرا گھر قرار دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ بھارت کی جانب سے جنگ مسلط کی گئی تو ہم پاکستانی قوم کا ساتھ دیں گے۔ ادھر افغان طالبان نے بھی پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے کئی برس تک لاکھوں افغانوں کی میزبانی کی ہے۔ آج بھی تیس لاکھ کے قریب افغان باشندے پاکستان میں پناہ گزین ہیں، لہٰذا پاکستان کے خلاف کسی بھی جارحیت کو قبول نہیں کیا جائے گا اور افغان طالبان جنگ میں غیر جانبدار نہیں رہیں گے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں پاکستان مخالف اور بھارت کے حامی واحد جنگجو گروہ شمالی اتحادکی اب کوئی حیثیت باقی ہے نہ اہمیت۔ امریکا کو یہ تشویش لاحق ہے کہ جنگ کی صورت میں پاکستان کی فضائی حدود کمرشل طیاروں کے لیے بند ہو گئیں تو اس کی اور نیٹو افواج کی سپلائی بند ہو جائے گی، جبکہ وسط ایشیائی روٹ بہت گراں، تکلیف دہ اور تاخیر کا باعث ہوگا۔ غالباً اسی تناظر میں اور اپنے فوجیوں کی واپسی کے لیے پاکستان کی راہداری بند ہونے کے خیال سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کو پسند نہیں کریں گے۔ انہوں نے فی الحال یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ اب شاید دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو انہیں کشیدگی کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر کو حل کرا دینا چاہئے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا یہ کہنا کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں، بلکہ دہشت گردوں کا ٹھکانہ تباہ کرنے کے لیے تھی، لیکن بھارت نے تین سو دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود دنیا کو ان کی کوئی ایک لاش بھی نہیں دکھائی اور نہ ان کے ٹھکانے کی تصاویر یا ویڈیوز جاری کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مقام پر اتنی بڑی کوئی عمارت ہی نہیں، جہاں مدرسے کے تین سو افراد یا تربیت حاصل کرنے والے جمع ہو سکیں۔ سشما سوراج اور بھارت کی سیاسی و فوجی قیادت کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں کہ دوسرے دن کے حملے کا کیا مقصد تھا؟ دوسری طرف بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے الٹا یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے بھارت کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تو اس کا ایک ایف سولہ طیارہ مار گرایا گیا۔ اپنے مگ 21 طیارے کی پاکستان میں تباہی اور اس کے پائلٹ کو گمشدہ قرار دینے کے بعد اب بھارت پاکستان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اس کا پائلٹ ابھے نندن رہا کر کے بھارت کے حوالے کر دیا جائے، کیونکہ یہ انسانی ہمدردی، بین الاقوامی قوانین اور جنیوا کنونشن کے قواعد کا تقاضا ہے۔ بھارت کی جانب سے اگر عالمی برادری کے علم میں یہ اضافہ بھی کر دیا جاتا تو بہتر تھا کہ پاکستان کی فضائی حدود کی لگاتار دو دن تک خلاف ورزی کس انسانی ہمدردی اور کون سے بین الاقوامی قوانین کے مطابق جائز تھی اور دو دن کی ذلت آمیز ناکامی کے بعد بھی کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھ کر شہریوں کو نشانہ بنانا انسانیت ہے یا درندگی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پردے کے پیچھے رہ کر اپنی افواج اور وزارت خارجہ کو جنگ کی آگ میں دھکیل رہے ہیں، جبکہ وزارت خارجہ کی ذمے داری ایک خاتون سشما سوراج کو سونپ رکھی ہے۔ وہ اپنی فضائیہ کے دو ناکام حملوں کے بعد بھی بلبلانے لگی ہیں کہ بھارت ’’مزید‘‘ کشیدگی نہیں چاہتا۔ وہ ذرا لفظ ’’مزید‘‘ کی وضاحت فرمادیں کہ اس سے پہلے ہر مرتبہ کشیدگی کا ماحول کون پیدا کرتا رہا ہے۔ پاکستان تو ہمیشہ کی طرح آج بھی کشیدگی ختم کرنے کے لیے فوری طور پر بھارتی پائلٹ کو رہا کر رہا ہے۔ یہ مقولہ مدتوں سے سچ ثابت ہوتا چلا آ رہا ہے، لیکن آج کے دور میں اس کی سچائی زیادہ واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے ’’جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘‘۔ سشما جی کی آڑ میں پناہ لینے والے نریندر مودی میں جرأت ہے تو خود آگے آئیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post