حضرت حارثہؓ بن نعمان بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں حضرت جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ دیکھا۔ ایک اس دن جب رسول اکرمؐ بنو قریظہ کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ اس روز حضرت جبریلؑ ہمارے پاس سے حضرت دحیہ کلبیؓ کے روپ میں گزرے تھے اور انہوں نے ہمیں ہتھیار پہننے کا حکم دیا تھا۔ دوسری مرتبہ اس وقت دیکھا، جب ہم غزوئہ حنین کے موقع پر شہدا کو دفن کرنے کے بعد واپس آرہے تھے۔ میں ایک جگہ سے گزر رہا تھا کہ حضرت جبریلؑ رسول اقدسؐ کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ میں نے سلام نہیں کیا۔ حضرت جبریلؑ نے کہا: ’’یا محمد! یہ کون ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’حارثہ بن نعمان۔‘‘
حضرت جبریلؑ نے کہا: ’’ہاں یہ ان سو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے والوں میں شامل تھے، جن کے رزق کی خدا تعالیٰ نے جنت میں ذمے داری لی۔ اگر یہ سلام کہتے تو ہم ان کے سلام کا جواب دیتے۔‘‘
حضرت حارثہ بن نعمانؓ ان لوگوں میں سے تھے، جن کے دلوں میں ایمان رچ بس گیا تھا۔ ہر طرح سے انہوں نے خدا کی رضا کے لیے کام کیا۔ یہ اپنی والدہ حضرت جعدۃؓ بنت عبید الانصاریۃ کا بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے۔ اس صحابیہؓ کو گھرانہ نبوت میں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
امام ذہبیؒ حضرت حارثہؓ کے اوصاف بیان کرتے ہیں:
’’وہ دیانت دار، نیک دل اور اپنی والدہ کے فرمانبردار تھے۔‘‘
ابن قدامہؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ عالم، فاضل صحابہ کرامؓ میں سے تھے۔‘‘ اس نیکی، فرمانبرداری اور فضل وشرف نے انہیں اہل جنت میں ہونے کا اعزاز بخشا۔
اس حوالے سے رسول اکرمؐ ارشاد فرماتے ہیں:
’’میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں قرأت سنی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمانؓ ہیں۔ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ نیکی تمہارے کام آئی۔‘‘
حضرت حارثہ بن نعمانؓ کی اولاد نامور صحابہ کرامؓ میں سے تھی۔ ان میں عبد اللہ بن حارثہؓ، بیٹی ام ہشام بنت حارثہؓ، جنہوں نے بیعت رضوان میں بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔ اسی طرح ان کی اولاد میں سے عبد الرحمن، سودہ، عمرۃ، ام کلثوم اور مشہور و معروف محدث ابو الرجال محمد بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن حارثہ بن نعمان انصاری ہیں۔
حضرت حارثہ بن نعمانؓ کی زندگی حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ حکومت کے وسط تک دراز ہوئی۔ آخری عمر میں ان کی بصارت ختم ہوگئی تھی۔ خلفائے راشدینؓ کے دور میں انہوں نے قابل قدر کارنامے سر انجام دیئے۔
ابن قدامہؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حارثہ بن نعمانؓ کی بینائی ختم ہوئی تو انہوں نے اپنی جائے نماز سے اپنے حجرے کے دروازے تک ایک رسی باندھ لی تھی اور اپنے پاس کھجوروں سے بھری ٹوکری رکھ چھوڑی تھی۔ جب بھی کوئی مسکین آکر سوال کرتا تو یہ اس ٹوکری سے کھجوریں لے کر رسی کا سہارا لیتے اور کھجوریں اس مسکین کو تھما دیتے۔
ہر چند اہل خانہ انہیں کہتے، ہم گھر میں موجود ہیں۔ آپ کی جگہ ہم کافی ہیں۔ آپ اتنی تکلیف کیوں کرتے ہیں؟ تو وہ فرماتے: میں نے رسول اکرمؐ سے یہ سنا ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’مسکین کو عطیہ پکڑانے والا بُری موت سے بچ جاتا ہے۔‘‘
حافظ ابن کثیرؒ رقمطراز ہیں کہ حضرت حارثہ بن نعمانؓ نے 51 ہجری میں وفات پائی۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post