تابعین کے ایمان افروز واقعات

0

حضرت سعید بن جبیرؒ ہر سال دو مرتبہ مکہ مکرمہ کا سفر اختیار فرماتے، ایک مرتبہ عمرے کے لیے رجب کے مہینے میں اور دوسری مرتبہ حج کے لیے ذی قعدہ کے مہینے میں۔
علم و اصلاح طلب کرنے والے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا، ان کے پاس دور دور سے لوگ کوفہ (شہر) آتے تھے اور ان کے پاس حاضر خدمت ہوتے اور ان کے علم سے ہر ایک اپنی اپنی طاقت کے مطابق فائدہ اٹھاتا۔
درس کے ختم ہونے کے بعد جب لوگ سوال کرتے تو ان کے جوابات علم و حکمت سے بھرے ہوئے ہوتے تھے، مختصر جواب کے اندر کئی علوم کا خلاصہ ہوتا تھا۔ مثلاً ایک شاگرد نے سوال کیا: ’’خشیت کسے کہتے ہیں؟‘‘
آپ نے جواب دیا: ’’خشیت اسے کہتے ہیں کہ تم خدا تعالیٰ سے ایسا ڈرو کہ یہ ڈر تمہارے اور گناہ کے درمیان حائل ہو جائے (یعنی خدا سے ڈرنے والا وہ ہے جو گناہ سے باز آجائے)‘‘
دوسرے شاگرد نے سوال کیا: ’’ذکر الٰہی کسے کہتے ہیں؟‘‘
آپؒ نے فرمایا: ’’خدا تعالیٰ کی فرماں برداری ہی دراصل ذکر الٰہی ہے، جو شخص رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا اور اس کی اطاعت بجا لایا، گویا اس نے حقیقت میں رب تعالیٰ کو یاد کیا۔‘‘
جس نے رب تعالیٰ کی نافرمانی کی، گناہوں سے نہ بچا، خواہ وہ ساری رات تسبیح اور تلاوت کرتا رہے، اسے حقیقی معنوں میں ذکر کرنے والا نہیں کہا جاسکتا۔
اب اس چھوٹے سے جملے میں شریعت کے کئی ابواب کی شرح فرما دی کہ اصل تو خدا کی بات مان کر گناہوں سے بچنا ہے۔ ایک آدمی راستہ چلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے کوئی گناہوں کی چیز نہیں دیکھتا تو اس نے گویا رب کا حکم نہیں مانا۔
عراق سے چلے جانے کا فیصلہ
جب سے حضرت سعید بن جبیرؒ نے کوفہ میں رہائش اختیار کی تھی، یہ شہر حجاج بن یوسف کی گورنری میں آچکا تھا۔ حجاج ان دنوں عراق، ایران اور سرزمین ماوراء النہر (ایک علاقہ ہے جو اس نام سے مشہور ہے) کا گورنر تھا اور اس کا رعب و دبدبہ، ظلم و ستم اور حکومت و اختیار بہت زیادہ تھا۔
حضرت سعید بن جبیرؒ کو یقین ہوگیا کہ اگر مجھے حجاج کے سامنے پیش کیا گیا تو دو صورتوں میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے، تیسری صورت نہیں ہوگی۔ یا میری گردن اُڑا دی جائے گی یا مجھے کفر کا ارتکاب کرنا ہوگا۔
یہ دونوں صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے جو سب سے زیادہ میٹھی معلوم ہوتی ہے، وہ حقیقت میں اتنی ہی زیادہ کڑوی ہے، لہٰذا انہوں نے چھپ کر عراق سے نکل جانے کو ترجیح دی۔
وہ خدا کی وسیع سرزمین میں حجاج اور اس کے کارندوں سے آنکھ بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ دور دراز کا سفر طے کرتے ہوئے مکہ معظّمہ کے قریب ایک بستی میں انہوں نے پناہ لی، اس میں پورے دس سال رہے۔ اتنا عرصہ دراز حجاج کے دل میں غیظ و غضب کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کافی ہونا چاہئے تھا۔
لیکن وہاں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو کسی کے ذہن و خیال میں بھی نہ تھا۔ ہوا یہ کہ مکہ معظّمہ میں بنوامیہ کا ایک نیا گورنر مقرر کیا گیا، جس کا نام خالد القسری تھا۔ حضرت سعید بن جبیرؒ کے ساتھیوں نے اس کی یہ عادت دیکھی کہ وہ معمولی بات پر سخت سزا دیتا ہے اور بہت بدمزاج ہے تو اس کی وجہ سے خطرہ محسوس کیا، بعض مخلص ساتھیوں نے حضرت سعیدؒ سے کہا:
اب جسے مکہ کا گورنر مقرر کیا گیا ہے، خدا کی قسم! ہمیں اس سے خطرہ ہے کہ وہ آپ کو نقصان پہنچائے گا۔ ہماری بات مانیں ازراہ کرم اس شہر سے چلے جائیں۔
آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! میں پہلے (عراق) سے بھاگا، یہاں آکر پناہ لی (مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا)، مجھے اب رب سے شرم آتی ہے، وہیں رہ کر مجھے حالات کا مقابلہ کرنا زیادہ بہتر تھا، میں اپنی اس کمزوری پر پہلے ہی بہت شرمندہ ہوں۔ لیکن اب میں نے پختہ ارادہ کرلیا ہے، اب میں یہیں رہوں گا، کہیں نہیں جاؤں گا اور رب کو جو منظور ہوگا وہ ہوکر رہے گا۔ (جو بھی معاملہ میرے ساتھ پیش آئے میں اسے خوش دلی سے قبول کروں گا)(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More