بہت سی خوبیاں تھیں جن سے متاثر ہو کر میں نے بیس سال کی عمر میں اس وقت اسلام قبول کرلیا جب وسیع اور ٹھوس مطالعے کے بعد مجھے اطمینان ہوگیا کہ اب میں ایک بامقصد اور مفید زندگی گزار سکتی ہوں اور یہ کہ اسلام بیک وقت انسان کو روحانی طور پر بھی آسودگی بخشتا ہے اور ایک حسین امتزاج کے ساتھ اس کے مادی مسائل میں بھی صحت مند رہنمائی عطا کرتا ہے…
تہذیبی سطح پر اسلام انسانی ذہن کی تخلیقی صلاحیتوں کو پر وان چڑھاتا ہے اور اپنے پیروکاروں میں انصاف اور صداقت کی بنیاد پر اخلاص اور خدمت کا وہ جذبہ پیدا کرتا ہے جو خود ان کے لیے بھی عزت و سربلندی کا باعث بنتا ہے اور عام انسانوں کے لیے امن اور رحمت کا سبب بن جاتا ہے۔
میں اس حقیقت کا برملا اعتراف کرنا چاہتی ہوں کہ اسلام نے میری زندگی کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ میں مایوسی، بے سکونی اور احساس تنہائی کی اس غیر معمولی کیفیت سے دوچار تھی، جس سے یورپ کا شاید ہی کوئی فرد محفوظ نظر آتا ہے۔ اسلام نے مجھے اس صورت حال سے نجات دلادی اور اسلام کے حصار میں آکر میں پہلی بار سچی مسرت اور لازوال سکون سے آشنا ہوئی۔ یوں لگا جیسے صدیوں کی پیاسی روح ٹھنڈے میٹھے چشمے پر پہنچ گئی ہو…
اس احساس نے مجھے اسلام کا شیدائی بنا دیا اور میں مسلسل محنت سے اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگی اور مسلمانوں کے اجتماعات میں شریک بھی ہونے لگی… اور یہ بھی خالص خدا کی عنایت ہے کہ میری شادی افغانستان کے ایک مسلمان طالب علم سے ہوگئی، جو ویانا میں زیر تعلیم تھا… میرے خاوند نے تعلیم مکمل کرلی تو ہم افغانستان آگئے۔ اس وقت میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی… اور رب تعالیٰ کا شکر کہ اس وقت سے لے کر آج تک میں ایک مسلمان کی حیثیت سے شرح صدر اور کامل اطمینان کے ساتھ اسلامی اصولوں پر کاربند ہوں اور مطمئن و مسرور ہوں۔
تاہم میں یہ ضرور عرض کرنا چاہوں گی کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں مسلم اکثریت کے ملکوں میں مقیم ہوں، یا غیر مسلموں کے درمیان زندگی گزار رہے ہوں، ہمیں مسلمان کی حیثیت سے اپنے اعمال و کردار کا تنقیدی جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا محاسبہ کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس حوالے سے میرا تجزیہ یہ ہے کہ عام مسلم معاشروں میں خواہ وہ یورپین فکر و تہذیب سے متاثر نہ بھی ہوں، اسلام کا محض ایک رسمی اور سرسری سا تصور کار فرما نظر آتا ہے۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو شعوری طور پر سمجھا ہے نہ اس پر عمل کرنے میں وہ سنجیدہ ہیں اور جو کچھ ہے وہ محض زبانی جمع خرچ ہے، اسلام ان کے قلب و ذہن میں گہرایی تک نہیں اترا۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مایوس ہو کر بیٹھ جائیں، بلکہ اس صورت حال میں ہمارا فرض ہے کہ تعلیم اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے عام مسلمانوں کو خواہ وہ قدامت پسند ہوں یا مغرب پرست، قائل کریں کہ ایک عالمی اور فطری دین کی حیثیت سے اسلام مستقبل میں ہونے والی ہر نوع کی ترقیات کا حامی ہے اور جدید ترین قسم کی ہر مثبت ترقی کا محافظ اور ضامن بھی ہے۔ ہمیں ماضی کی طرح تحقیق اور سائنس کے میدانوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور مخالفین اسلام اور مغرب پرست مسلمانوں کا یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ گزشتہ چند صدیوں سے اہل اسلام پر جمود، علم بیزاری، بے علمی اور جہالت کی جو کیفیت طاری ہے، اس کا سبب اسلام ہے، اس لیے اسلام اور اسلامی علوم پر پابندی عائد کر دینی چاہئے۔ ہمیں دنیا والوں کو علمی طور پر یہ باور کرنا چاہئے کہ سچا اور اصلی اسلام تو حقیقی معنوں میں ایک متحرک ضابطہ حیات ہے ۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post