حضرت سعید بن جبیرؒکی گرفتاری
گورنر مکہ خالد کے بارے میں لوگوں نے جو اندازہ کیا تھا، وہ صحیح ثابت ہوا، جب اسے حضرت سعید بن جبیرؒ کی رہائش کا علم ہوا تو اس نے پولیس کو حکم دیا کہ انہیں گرفتار کر کے حجاج بن یوسف کے پاس واسط شہر میں لے جاؤ۔
پولیس نے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا، آخرکار انہیں گرفتار کر کے حجاج بن یوسف کی طرف چلنے کو کہا گیا۔ آپ بغیر کسی اعتراض کے واسط شہر کی طرف چلنے لگے، اپنے ساتھیوں پر آخری نظر ڈالی اور فرمایا: مجھے لگتا ہے اب ظالم و جابر حجاج کے ہاتھوں شاید مجھے شہید کر دیا جائے گا۔
اس لیے کہ ایک رات ہم تین ساتھی عبادت میں مصروف رہے، دعا کی لذت اور مٹھاس کا احساس ہوا تو جی بھر کر خدا کے حضور دعائیں کیں اور اس کی بارگاہ میں دل کھول کر گڑگڑائے اور جو مانگ سکے مانگا، اس میں یہ بھی مانگا:
ترجمہ: پھر ہم نے رب تعالیٰ سے التجا کی کہ ہمارے لیے شہادت کی موت مقدر فرما دے، میرے دونوں ساتھیوں کو رب تبارک وتعالیٰ نے شہادت کی موت نصیب فرما دی، لیکن میں ابھی تک اس کے انتظار میں ہوں۔
یہ بات کہہ ہی رہے تھے کہ آپ کی ایک چھوٹی بیٹی آگئی، اس نے دیکھا کہ آپ کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور سپاہی آپ کو لے کر جا رہے ہیں تو وہ آپ سے چمٹ کر زار و قطار رونے لگی۔
حضرت سعید بن جبیرؒ نے بڑے پیار ومحبت سے اس بچی کو اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا: میری پیاری بیٹی! اپنی امی کو میرا پیغام پہنچا دینا کہ اب خدا نے چاہا تو جنت میں ملاقات ہوگی۔
یہ کہہ کر آپ پولیس والوں کے ساتھ روانہ ہوگئے۔
حجاج کے دربار میں پیشی اور شہادت
جب اس عبادت گزار، پرہیزگار، رات کو عبادت کے لیے جاگنے والے عالم، فاضل اور عظیم مرتبہ شخصیت کو حجاج بن یوسف کے دربار میں پیش کیا گیا تو حجاج نے انہیں بری نگاہوں سے دیکھا اور بڑی حقارت سے پوچھا: ’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘
حضرت سعید بن جبیرؒ نے فرمایا: سعید بن جبیر، جس کا ترجمہ ہے ٹوٹی ہوئی چیزوں کی اصلاح کرنے والے باپ کا نیک بخت بیٹا۔
حجاج نے کہا: نہیں، بلکہ تیرا نام شقی بن کسیر ہے۔ جس کا معنی جڑی ہوئی چیزوں کے توڑنے والے شخص کا بدبخت بیٹا۔
حضرت سعیدؒ نے فرمایا: میری والدہ میرے نام کے متعلق تجھ سے بہتر جانتی تھیں۔
حجاج نے کہا: تیری والدہ بھی بدبخت ہے اور تو بھی۔
حضرت سعیدؒ نے فرمایا: غیب کی باتوں (سعادت وشقاوت) کا جاننے والا کوئی اور ہی ہے۔
حجاج نے کہا: خدا کی قسم! میں تیرے سارے عیش کو بھڑکتی ہوئی آگ سے بدل دوں گا۔
حضرت سعیدؒ نے فرمایا: اگر میں یہ جانتا کہ نفع ونقصان یا راحت وآرام تیرے قبضہ میں ہے تو میں تجھے خدا سمجھ کر سجدہ کیا کرتا۔
حجاج نے پوچھا: حضرت محمدؐ کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟
فرمایا: تمہاری مراد اس سے محمدؐ بن عبداﷲ جن پر خدا کی رحمتیں اور سلامتی ہو، ہیں؟
حجاج نے کہا: جی ہاں!
فرمایا: وہ اولاد آدم کے سردار، نبی مصطفیٰ، ساری مخلوق میں سب سے اعلیٰ، اونچی شان والے اور بہتر و برتر ہیں۔ رسالت کا تاج ان کے سر پر سجایا گیا۔ آپؐ نے امانت رسالت کی ادائیگی کا حق ادا کر دیا، آپؐ نے خدا اور اس کی کتاب کی طرف لوگوں کو بلایا اور عام و خاص مسلمانوں کو دنیا و آخرت کی خیروں اور بھلائیوں کی طرف بلایا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post