حضرت عبد الرحمن بن ربیعہ باہلیؓ مشہور عرب قبیلہ باہلہ کے چشم و چراغ تھے۔ ابن اثیرؒ کا بیان ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن ربیعہؓ ذی النور کے لقب سے مشہور تھے۔ ان کو رسول اکرمؐ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا، مگر انہوں نے آپؐ سے کوئی حدیث نہیں سنی۔
حضرت عبد الرحمن بن ربیعہؓ عالم فاضل آدمی تھے۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ بھی ان کے علم وفضل کے معترف تھے۔ چنانچہ جب حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے قادسیہ (عراقِ عرب) کی لڑائی میں فتح پائی تو امیر المومنین کی ہدایت کے مطابق مالِ غنیمت کی وصولی اور تقسیم حضرت عبد الرحمنؓ کے سپرد کی گئی۔ اس کے علاوہ ان کو قضاء کا عہدہ بھی سپرد کیا گیا۔ (یعنی وہاں کے قاضی بنائے گئے) چند سال بعد حضرت عمر فاروقؓ نے انہیں ایک لشکر کا امیر مقرر کرکے آرمینیا (بلادِ ارمن) کی تسخیر کے لیے روانہ کیا۔
چنانچہ وہ یلغار کرتے ہوئے باب کے قریب پہنچ گئے۔ وہاں کے مجوسی حاکم شہر براز نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلی اور ان کے ساتھ ہو لیا۔ پھر حضرت عبدالرحمنؓ مملکت ِ خزر کے پایہ تخت بلنجر کی طرف بڑھے۔ حاکمِ شہر براز نے تعجب سے کہا کہ یہ کیا ارادہ ہے؟ ہم لوگ تو اسی کو غنیمت سمجھتے تھے کہ ارمنی ہم پر چڑھ کر نہ آئیں۔ حضرت عبد الرحمنؓ نے جو جوشِ جہاد سے سرشار تھے، فرمایا: لیکن میں تو جب تک ارمنی مملکت کے جگر میں نہ گھس جائوں، باز نہیں آسکتا۔
چنانچہ انہوں نے شہر بیضاء کو مسخر کرلیا، لیکن اس اثناء میں حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کی وجہ سے عہدِ فاروقی ختم ہو گیا اور مسلمانوں کی پیش قدمی وقتی طور پر رک گئی۔ سیدنا عثمانِ غنیؓ نے اپنی خلافت کے آٹھویں سال آرمینیا کی طرف توجہ فرمائی اور حضرت حجیبؓ بن مسلمہ فہری کو اس کی تسخیر پر مامور کیا۔ حضرت عبد الرحمنؓ بھی اس لشکر کے ساتھ تھے۔ وہ بلنجر کے مقام پر آرمینیوں کے خلاف دادِ شجاعت دیتے ہوئے رتبہ شہادت پر فائز ہوگئے، تاہم حضرت حبیبؓ نے آرمینیا فتح کرکے اسے مملکت ِ اسلامیہ میں شامل کرلیا۔
حضرت عبدالجبار بن حارثؓ کا تعلق قبیلہ ’’بنی منار‘‘ کی ایک شاخ بنی حدس (بروایتِ دیگر حرش) سے تھا۔ کتبِ سیر میں ان کا نسب نامہ صرف اتنا ہی بیان کیا گیا ہے: عبد الجبار بن حارث بن مالک۔ وہ اپنی قوم کے بہادروں میں شمار ہوتے تھے اور ان کی سکونت ’’جبل السراۃ‘‘ کی کسی شمالی وادی میں تھی (جزیرہ نمائے عرب کے مغربی رخ پر شمال سے جنوب تک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلہ کو جبل السّراۃ یا جبال السّراۃ کہتے ہیں۔ شمال میں اس سلسلۂ کوہ کا رشتہ شام وفلسطین کے پہاڑوں سے مل جاتا ہے۔ جنوب کے حصے یمن تک پہنچتے ہیں اور ان کو جبال العسیر یا جبال الیمن کہا جاتا ہے)۔
ارباب سیر نے حضرت عبد الجبارؓ کے قبولِ اسلام کا زمانہ بیان نہیں کیا، لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ نو ہجری میں یا اس کے کچھ بعد بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوئے۔ زمانہ جاہلیت میں ان کا نام جبار تھا۔ آنحضورؐ نے اسے بدل کر عبد الجبار کر دیا۔
حضرت عبدالجبارؓ نے بارگاہِ نبویؐ میں اپنی حاضری اور قبولِ اسلام وغیرہ کا واقعہ خود اس طرح بیان کیا ہے: ’’میں وفد بن کر ملک سراۃ (متصل سرحدِ شام) سے رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرب کے دستور کے مطابق آپؐ کو ’’اَنعم صَبَاحاً‘‘ (یعنی صبح بخیر) کہہ کر سلام کیا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ خدا تبارک وتعالیٰ نے محمد (ﷺ) اور آپ کی امت کو دوسرے سلام کا حکم دیا ہے عنی السلام علیکم، علیکم السلام کیا کریں۔ پس میں نے اسی کے مطابق السلام علیکم یا رسول اللہ! عرض کیا، تو آپؐ نے جواب دیا، وعلیکم السلام۔
اس کے بعد آپؐ نے دریافت فرمایا، تمہارا نام کیا ہے؟
میں نے عرض کیا: ’’جبار۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: (یہ نہیں) بلکہ تمہارا نام عبد الجبار ہے۔
اس کے بعد میں نے اسلام قبول کر لیا اور رسول اقدسؐ کی بیعت کرلی۔ جب میں بیعت کرچکا تو ایک شخص نے آنحضورؐ سے میرے متعلق عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ منادی اپنی قوم کے شہسواروں میں سے ایک شہسوار ہے (یعنی اس کا شمار اپنی قوم کے شہسواروں میں ہوتا ہے) اس پر رسول اکرمؐ نے مجھے ایک گھوڑا عنایت فرمایا۔ پس میں مدینہ منورہ میں مقیم ہو گیا اور رسول اکرمؐ کی ہم رکابی میں دشمنوں سے جہاد کرنے لگا۔ (یعنی غزوات میں شریک ہونے لگا) ایک دن رسول اکرمؐ نے میرے گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز نہ سنی تو فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں عبد الجبار حدسی (بروایتِ دیگر حرشی) کے گھوڑے کی آواز نہیں سن رہا؟
میں نے عرض کیا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ کو اس کی آواز سے تکلیف پہنچتی ہے۔ چنانچہ میں نے اس کو خصی کر دیا ہے۔ اس پر نبی اکرمؐ نے گھوڑوں کو خصی کرنے کی ممانعت فرمائی۔
حضرت عبد الجبارؓ کے مزید حالات کسی کتاب میں نہیں ملتے۔ ان کا سالِ وفات بھی وثوق کے ساتھ کسی نے بیان نہیں کیا۔ ایک غریب روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے عہدِ رسالت کے کسی غزوے میں شہادت پائی۔ (ابن مندہ، ابنِ عساکر، ابنِ اثیر، کذا فی المنتخب ج 5 ص 215) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭