امام بیہقیؒ نے دلائل النبوۃ میں ابوسیرۃ النخعی سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص یمن سے آرہا تھا۔ راستہ میں اس کا گدھا مر گیا تو اس نے وضو کرکے دو رکعت نماز ادا کی اور یہ دعا مانگی۔
’’یا الٰہی! میں تیری راہ میں جہاد کرنے آیا تھا اور اس سے میرا منشا آپ کی خوش نودی حاصل کرنا تھا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تو مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور اہل قبور کو ایک دن زندہ کرکے اٹھائے گا، آج تو مجھے کسی کا احسان مند نہ کرنا، لہٰذا میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میرے گدھے کو زندہ فرما دے۔‘‘
حق تعالیٰ نے اس کی دعا قبول فرمالی اور اس کا گدھا کان ہلاتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
امام بیہقیؒ کہتے ہیں کہ اس قصے کی اسناد صحیح ہیں۔ علامہ دمیریؒ کہتے ہیں کہ مردوں کا زندہ کرنا صاحب شریعت کے لئے ایک معجزہ ہے۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ امت محمدیہ میں ایسے نفوس قدسیہ بھی موجود ہیں کہ جن کی دعائوں سے مردہ بھی زندہ ہو جاتے ہیں۔
امام شعبیؒ کہتے ہیں کہ میں نے اس گدھے کو بازار میں بکتے ہوئے دیکھا ہے۔ لوگوں نے اس کے مالک سے کہا کہ کیا تو ایسے گدھے کو بیچنے کا ارادہ کر رہا ہے، جس کو رب تعالیٰ نے تیری خاطر زندہ کردیا تھا؟ مالک نے جواب دیا کہ اگر اس کو فروخت نہ کروں تو کیا کروں؟ اس پر ایک شخص نے تین اشعارکہے، جن میں سے ایک شعر مجھے یاد ہے اور وہ یہ ہے:
ترجمہ: اور ہم میں سے کچھ ایسے بھی (افراد) ہیں کہ خداوند تعالیٰ نے ان کے گدھے میں ایسی جان ڈال دی جیسا کہ ایک نبی کے گدھے میں ڈال دی گئی تھی۔ حالانکہ اس گدھے کے ایک ایک عضو اور جوڑ سے جان نکل گئی تھی۔‘‘
اس گدھے والے کا نام نباتتہ بن یزید النخعی تھا۔
قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ کی ایک دعا منقول ہے۔ ترجمہ (اے میرے رب مجھ کو دکھا دیجئے کہ آپ کیسے مردوں کو زندہ کر دیتے ہیں) اس آیت شریفہ کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جو بغرض افادہ ذیل میں درج ہیں:
حسن، قتادہ اور عطاء خراسانی، ضحاک اور ابن جریحؒ کا قول ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے اس سوال کا سبب یہ ہے کہ آپ کا گزر ایک مردہ جانور پر ہوا (بقول ابن جریح وہ ایک گدھے کی لاش تھی جودریا کے کنارے پڑی ہوئی تھی اور بقول عطاء وہ دریا بحر طبریہ تھا) اور لاش کو خشکی و تری کے جانوروں نے آپس میں بانٹ رکھا تھا۔ جب دریا موج مارتا تو مچھلیاں اور دوسرے دریائی جانور اس کو کھاتے اور جب دریا سمٹ جاتا تو خشکی کے درندے اس سے شکم سیر ہوتے۔ پرندوں کے کھانے سے جو بچ جاتا وہ ہوا میں اڑجاتا۔ حضرت ابراہیمؑ کو یہ کیفیت دیکھ کر تعجب ہوا اور عرض کیا: اے میرے رب! میں جانتا ہوں کہ آپ اس لاش کے تمام اجزا کو خشکی کے درندوں، پانی کے جانوروں اور پرندوں کے پوٹوں سے نکال کر پھر جمع فرمادیں گے۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں کہ آپ کیسے زندہ فرما دیں گے۔ اس طرح میرا علم عین الیقین میں بدل جائے، کیونکہ مثل مشہور ہے: ’’شنیدہ کی بود مانند دیدہ‘‘ یعنی خبر سے مشاہدہ اور معائنہ جیسا یقین حاصل نہیں ہوتا۔
حق تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی اس خواہش پر اظہار ناپسندیدگی فرمایا اور کہا کہ تم مجھ پر ایمان نہیں رکھتے؟ حضرت ابراہیمؑ نے جواب دیا کیوں نہیں، بے شک میں آپ پر یقین اور ایمان رکھتا ہوں۔ مگر یہ خواہش صرف اس لئے ہے کہ میرا دل مطمئن ہوجائے اور میرا یقین عین الیقین میں بدل جائے۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے اس سوال کا سبب یہ تھا کہ حضرت ابراہیمؑ نے نمرود سے مناظرہ کے وقت یہ دلیل پیش کی تھی کہ یعنی میرا رب وہ ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے تو نمرود نے جواب دیا کہ میں بھی موت اور حیات پر قدرت رکھتا ہوں اور اس کے ثبوت میں اس نے قید خانہ سے دو شخصوں کو بلاکر ایک کو رہا کر دیا اور ایک کو ہلاک کر دیا اور کہنے لگا کہ دیکھو، میں نے ایک کو مار دیا اور دوسرے کو زندگی دے دی۔ اس پر حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ میرا رب تو جسد مردہ کو زندگی بخشتا ہے اور تو نے تو زندہ کو زندہ چھوڑ دیا اور کہہ دیا کہ میں نے زندگی دے دی۔ نمرود نے یہ سن کر کہا کیا آپ نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے ایسا کرتے تھے دیکھا ہے؟ تو اس پر حضرت ابراہیمؑ لاجواب ہوگئے اور دوسری حجت طلوع آفتاب کی پیش کرکے نمرود کو خاموش کر دیا۔
پھر حضرت ابراہیمؑ نے حق تعالیٰ سے درخواست کی کہ احیاء موتی کا منظر مجھے دکھا دیا جائے اور جب رب تعالیٰ نے اس پر سوال کیا کہ کیا تجھ کو مجھ پر ایمان نہیں ہے تو حضرت ابراہیمؑ نے جواب دیا کہ بے شک میں ایمان رکھتا ہوں، مگر میں اس لئے دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ میرا دل میری دلیل کی مضبوطی پر مطمئن ہو جائے اور جب پھر کبھی نمرود مجھ سے یہ سوال کرے گا تو میں جواب میں کہہ سکوں کہ ہاں میں نے اپنی آنکھوں سے احیاء موتی کا منظر دیکھا ہے۔پھر ان کی درخواست پر حق تعالیٰ نے تین پرندوں کو جنہیں سیدنا ابراہیمؑ نے ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف پہاڑوں پر رکھ دیا تھا، زندہ فرما دیا۔ بے شک وہ چیز پر قادر ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post