بچہ بغل میں، ڈھنڈورا شہر میں!

0

ممتاز ولندیزی صحافی محترمہ بیٹے ڈیم (Bette Dam) نے اپنی ایک تازہ کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ طالبان کے بانی ملا عمر 2001ء میں امریکی حملے کے بعد سے ایک دن کے لئے بھی افغانستان سے باہر نہیں گئے، بلکہ وہ 2013ء میں اپنی موت تک افغان صوبے زابل کے دارالحکومت قلات میں امریکی فوجی اڈے سے چند گز کے فاصلے پر مٹی کے ایک کچے گھر میں رہے۔ امریکی حکومت نے ملا عمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔ ولندیزی زبان میں اس کتاب کا عنوان Op Zoek Naar De Vijand یا ’’دشمن کی تلاش‘‘ ہے۔ امریکہ نے اس انکشاف پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا، لیکن کابل حکومت نے بیٹے ڈیم کے تجزیئے کو بکواس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملا عمر سقوطِ کابل کے فوراً بعد پاکستان چلے گئے تھے۔
40 سالہ بیٹے ڈیم نے جامعہ ایمسٹرڈیم سے صحافت میں ایم اے کیا اور اس کے بعد عملی صحافت شروع کر دی۔ بیتے ڈیم انٹرنیٹ اور خبر ایجنسیوں کی اطلاعات پر بھروسہ کرنے کے بجائے زمینی حقائق کے مشاہدے کے لئے خود ان علاقوں کا دورہ کرتی ہیں۔ محترمہ اس سلسلے میں عراق، افغانستان اور شام جا چکی ہیں۔ ملا عمر اور طالبان پر تحقیق کے لئے بیٹے ڈیم 2009ء سے 2014ء تک مسلسل کابل میں رہیں۔ اسی بنا پر انہیں فارسی اور پشتو پر بھی عبور حاصل ہے۔ یہ خاتون ایک مؤقر امریکی مرکزِ دانش زومیا سینٹر (Zomia Center) سے وابستہ ہیں۔ زومیا سینٹر دراصل جامعہ ایرییزونا کے تحقیقی مرکز برائے Future of War and New America کا حصہ ہے، جو دنیا بھر میں جنگ، انقلابات اور سیاسی و معاشرتی تبدیلیوں پر تحقیق کرتا ہے۔
محترمہ بیٹے ڈیم کی کتاب زومیا سینٹر نے شائع کی ہے۔ کابل انتظامیہ کی طرف سے میں نہ مانوں کی رٹ اپنی جگہ، لیکن مصنف کی پانچ برس کی تحقیق اور زومیا جیسے مؤقر ادارے کی طرف سے شائع ہونے والی اس کتاب کو اتنی آسانی سے رد نہیں کیا جا سکتا۔
بیٹے ڈیم نے اپنی کتاب میں لکھا کہ سقوطِ کابل کے ساتھ ہی ملا عمر زابل کے دارالحکومت قلات کے ایک کچے سے مکان میں گوشہ نشین ہوگئے۔ تھوڑی ہی دن بعد ان کی ’’رہائش گاہ‘‘ سے چند قدم کے فاصلے پر امریکی فوج نے Laghman Forward Operating Base کے نام سے ایک بہت بڑا فوجی اڈا قائم کر دیا، لیکن ملا صاحب اطمینان سے اس کے سائے میں چھپے رہے۔ اس گھر کی جو تصویر جاری کی گئی ہے، اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہاں نہ تو کوئی چہار دیواری ہے، نہ ہی کوئی گیٹ اور دربان۔ طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملا صاحب صبح کے وقت باہر آکر باغیچے میں بھی بیٹھا کرتے تھے۔
محترمہ ڈیم کا کہنا ہے حساس محل وقوع کی وجہ سے امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں علاقے کے گھروں پر نظر رکھا کرتی تھیں۔ ایک بار ملا صاحب باغیچے میں بیٹھے تھے کہ امریکی فوج کا ایک دستہ وہاں سے گزرا۔ ملا صاحب نے اخبار کو اس انداز میں اپنے منہ کے آگے کرلیا، جیسے وہ معمول کی اخبار بینی میں مصروف ہوں اور فوجی ان کے پاس سے کچھ کہے بغیر گزر گئے۔ ایک بار تو ان کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی، لیکن لوگ انہیں پہچان نہ سکے۔
اس کتاب سے امریکہ کا یہ الزام قطعاً غلط ثابت ہوا کہ طالبان کی قیادت پاکستان میں مقیم تھی۔ آپ نے یقیناً کوئٹہ شوریٰ، سیٹیلائٹ ٹائون ہیڈکوارٹر، حقانی نیٹ ورک وغیرہ کا شور سنا ہوگا۔ امریکی قیادت ڈو مور کے نام پر مسلسل ان قوتوں کے خلاف کارروائی کے لئے اسلام آباد پر دبائو ڈالتی رہی۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے ان دہشت گردوں کی نشاندہی کے مطالبے کے باوجود امریکہ نے ان کے ٹھکانوں کا کوئی اتہ پتہ نہیں بتایا اور اب اس کتاب سے پتہ چلا کہ یہ لوگ کبھی پاکستان میں رہے ہی نہیں۔ یعنی ان کی خوہش تھی کہ پاکستانی فوج سائے کے تعاقب میں اپنی توانائیاں ضائع کرتی رہے۔
پاکستان کی بدنصیبی کہ ہمارے تجزیہ نگار اور دنیائے صحافت کے جغادری مغرب کی ہر بات کو من و عن درست تسلیم کرکے پاکستان کو بے دردی سے سنگسار کرنے میں ہندوستانی صحافیوں سے بھی آگے ہیں، لیکن اس چشم کشا انکشاف کے بعد جوابی بیانیہ تو ایک طرف، اس کتاب کی تفصیلات بھی پاکستانی میڈیا پر نظر نہیں آئی۔
قطر امن مذاکرات، نہ فیصلہ کن اور نہ مایوس کن:
قطر میں جاری طالبان اور امریکہ کے درمیان 16 دن جاری رہنے والی بات چیت کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی ہے۔ ملاقات کے بعد طالبان کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
No breakthrough” but "no breakdown either
یقیناً ہمارے احباب کے کان میری طرف سے مولویوں اور باریش حضرات کی ’’بے جا‘‘ حمایت سن سن کر پک چکے ہیں، لیکن ایک بار پھر وہی مرحلہ درپیش ہے۔ میٹھے پشتو لہجے میں انگریزی کے اس مختصر سے جملے کے ذریعے طالبان کے ترجمان نے امیدو رجا کی جو کیفیت بیان کی ہے، اس کی تعریف نہ کرنا بد دیانتی ہوگی۔ شاید دریا کو کوزے میں بند کرنا اسے ہی کہتے ہیں۔
بات چیت کے حالیہ مرحلے کے اختتام پر ایک طویل ٹویٹ میں امریکی وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ’’طویل ملاقات کے اس مرحلے میں قیام امن کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ اور طالبان دونوں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کے لئے پرعزم ہیں اور بات چیت کے دوران مختلف امور پر شدید اختلاف کے باوجود ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘
دونوں جانب سے امید افزا اعلان اپنی جگہ، لیکن یہ بات طے ہے کہ قیام امن کیلئے مثبت پیش قدمی کے باوجود مذاکرات کا یہ مرحلہ بھی بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ تاہم موجودہ مرحلے کی سب سے بڑی کامیابی دونوں فریقوں کی جانب سے ایجنڈے پر اتفاق ہے، جو کچھ اس طرح تھا:
1 بعد از امن انسداد دہشت گردی کے مؤثر و قابل اعتماد اقدامات
2 افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا
3 افغان گروہوں کے درمیان بات چیت
4 جنگ بندی
جناب زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ایجنڈے کے پہلے دو نکات پر معاہدے کیلئے مسودے پر اتفاق ہو چکا ہے۔ گویا امریکہ افغانستان سے نکلنے پر تیار ہے اور پسپا ہوتی فوج کو واپسی کا محفوظ راستہ دینے کیلئے طالبان جو یقین دہانیاں کرارہے ہیں، اس پر امریکی وزارت دفاع المعروف Pentagon مطمئن ہے۔ اب اصل تنازعہ نئے بندوبست میں کابل سرکار کے کردار پر ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان اشرف غنی سے مل کر انہیں یہ ضمانت دیں کہ امریکی فوج کی واپسی کے بعد کابل انتظامیہ کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
طالبان امن و انصاف کی ضمانت دینے کو تو تیار ہیں، لیکن وہ کابل حکومت کو امریکی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ امریکی سفارتی ذرائع کاکہنا ہے کہ طالبان کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ اشرف غنی یا ان کا کوئی نمائندہ امن مذاکرات کے دوران امریکی وفد کا حصہ بن جائے، لیکن وہ کابل حکومت سے براہ راست گفتگو نہیں کریں گے۔
ملاقات کے بے نتیجہ ختم ہونے پر اشرف غنی حکومت نے اطمینان کا سانس لیا اور صدارتی ترجمان نے اپنے ایک ٹویٹ میں ’’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘‘ اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت جلد شروع ہونے کی امید ظاہر کی۔
بات چیت جاری رکھنے کی خواہش کے اظہار کے باوجود اگلی ملاقات کی تاریخ اور مقام کا اعلان نہیں کیا گیا۔ خیال ہے کہ زلمے خلیل زاد وطن واپس آکر صدر ٹرمپ اور اپنے Boss مائیک پومپیو کو بات چیت کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے، جس کے بعد امریکہ اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گا۔ صدر ٹرمپ کو ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسندوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے جو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کو اپنی شکست سے تعبیر کر رہے ہیں۔ انہی لوگوں کے دبائو پر صدر ٹرمپ نے شام میں 200 فوجیوں پر مشتمل ایک علامتی موجودگی برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے، لیکن افغانستان کے مولویوں کے لئے اپنے دیس پر غیر ملکیوں کی کوئی علامت یا حقیر سی نشانی بھی قابل قبول نہیں۔ طالبان نے اگلی ملاقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن وہ اپنی بدن بولی (body language) سے ایسا کہتے نظر آئے کہ ’’ہم امن تو چاہتے ہیں، لیکن معاہدہ اپنی شرائط پر کریں گے، آپ اپنے Boss سے بات کرلیں۔‘‘ خیال ہے کہ اگلے مرحلے میں امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو خود بھی مذاکرات میں شرکت کیلئے قطر جائیں گے۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More