فریضہ حج ادا کرنا
حضرت محمد بن واسع ازدی ؒ حضرت یزید بن مہلب کی قیادت میں مشرکین کے خلاف جنگ میں مصروف تھے، یہاں تک کہ حج کا وقت قریب آگیا، حج میں بہت تھوڑے دن باقی رہ گئے تھے۔ آپ نے امیر جماعت سے فریضہ حج ادا کرنے کی اجازت طلب کی۔
امیر جماعت نے کہا: حضرت! اجازت آپ کے اختیار میں ہے، آپ جب چاہیں جا سکتے ہیں، ہم نے آپ کے لئے کچھ مال کا بھی بندوبست کیا ہے، جو سفر میں آپ کے کام آئے گا۔
آپ نے فرمایا: اے امیر لشکر! کیا آپ نے جماعت کے ساتھیوں کو اتنا مال دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے کسی ایسی چیز کی ضرورت نہیں جو مجھے دوسرے ساتھیوں سے خاص بنا دے، میری حیثیت ایک عام مسلمان مجاہد کی طرح ہے۔ پھر ان سے رخصت ہوکر روانہ ہوگئے۔
مسلمانوں پر اور خود امیر جماعت پر ان کا سفر بہت مشکل گزرا، ان کی جدائی کا صدمہ ہر ایک کو تھا، ہر ایک ان کی مجلس یاد کرتا تھا اور ہر ایک کی تمنا تھی کہ وہ جلد ہی حج سے فارغ ہو کر سلامتی اور عافیت کے ساتھ دوبارہ ہمارے پاس لوٹ آئیں، بلکہ اور دوسری جماعتیں جو دوسرے ملکوں میں جہاد کا کام کر رہی تھیں، ان کی بھی خواہش تھی کہ حضرت محمد بن واسع ازدیؒ کچھ وقت ہماری جماعتوں کے ساتھ بھی گزار لیں۔ ان کے علوم سے ہم بھی فائدہ اٹھائیں اور ان کی دعائوں سے رب تعالیٰ ہمیں بھی اپنے سفر میں کامیاب فرمائے۔
بصرہ کے اس عابد پرہیزگار، رات کو رب تعالیٰ کی عبادت کرنے والے، عظیم مرتبہ شخصیت کی ایک اور ملاقات قتیبہ بن مسلم باہلی ؒ سے ہوئی، جس کا تذکرہ اگلے صفحات میں ہے۔ اسے پڑھ کر آپ کا ایمان مزید تازہ ہو جائے گا اور اس کے تذکرے سے آپ اپنی منزل کا راستہ متعین کر سکیں گے۔
کس قدر معزز ہیں وہ ہستیاں جو اپنے آپ کو حقیر جانیں، لیکن رب تعالیٰ اور عام لوگوں کے نزدیک اعلیٰ، اونچی شان والے اور محبوب ہوں۔ ان مبارک اور پاکیزہ ہستیوں کے تذکرے تاریخ کے اوراق پر جگہ جگہ لکھے ہوئے ہیں۔
یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ خود کو بڑا ثابت کرنے کیلئے نہ لگے رہیں۔ اس سے خامیاں نظر نہیں آتیں۔ اس طرح آپ اپنی نظر میں تو بڑے بن جائیں گے اور دوسروں کی نظر میں چھوٹے بنیں گے۔ اونچا درجہ تب ہی حاصل ہوتا ہے جب آدمی اپنی نظر میں چھوٹا بنے اور اس کی فکر میں لگا رہے کہ میرے اندر کون کون سی خامیاں ہیں، انہیں ایک ایک کرکے دور کرے تب جاکے متقوں کا درجہ حاصل ہوگا۔
اسی درجہ کیلئے حدیث میں ایک دعا سکھلائی گئی ہے:
(ترجمہ) ’’خدایا! مجھے اعلیٰ درجے کا صبر کرنے والا اور نہایت شکر گزار بندہ بنا دے اور مجھے اپنی نگاہ میں چھوٹا بنا دے اور لوگوں کی نگاہ میں بڑا بنا دے۔‘‘
محمد بن واسعؒ اور قتیبہ بن مسلم باہلیؒ
’’ محمد بن واسع ازدی کی وہ ایک انگلی جو رب تعالیٰ کی طرف اٹھی ہوئی ہے، مجھے اب ہزار قیمتی تلواروں سے زیادہ محبوب ہے، جو تجربہ کار، تیز طرار، جہاد کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ہوں۔‘‘ (قتیبہ بن مسلم)
87 ہجری کے حالات
اب ہم آپ کو ماضی کے دنوں میں 87 ہجری میں لے جا رہے ہیں، یہاں مسلمانوں کے ایک عظیم قائد قتیبہ بن مسلم باہلیؒ راہ خدا میں جہاد کے لئے بخارا کی طرف جا رہے ہیں اور یہ ارادہ ہے کہ ماوراء النہر کے باقی علاقوں اور پھر چین کے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے، اگر انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو ہمارے بھائی بن جائیںگے، ورنہ صلح کر کے ہمیں جزیہ دیں گے اور ہم آگے دوسرے لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں گے۔
اور اگر یہ بھی قبول نہیں تو جنگ کریں گے۔ اہل بخارا کو جب پتا چلا کہ مسلمانوں کا لشکر آرہا ہے تو و جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post