معارف و مسائل
حکم رسولؐ دراصل حکم خدا ہے:
اس آیت میں ان درختوں کے کاٹنے، جلانے یا ان کو باقی چھوڑنے کے دونوں عملوں کو باذن الٰہی فرمایا ہے، حالانکہ قرآن کریم کی کسی آیت میں دونوں میں سے کوئی بھی حکم مذکور نہیں، ظاہر تو یہ ہے کہ دونوں حضرات نے جو عمل کیا، وہ اپنے اجتہاد سے کیا، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ انہوںنے نبی کریمؐ سے اجازت لی ہو، مگر قرآن کریم نے اس اجازت کو جو کہ ایک حدیث تھی، اذن الٰہی قرار دے کر واضح کر دیا کہ رسول کریم کو حق تعالیٰ کی طرف سے تشریع احکام کا اختیار دیا گیا ہے اور جو حکم آپؐ جاری فرما دیں، وہ خدا تعالیٰ ہی کے حکم میں داخل ہے۔ اس کی تعمیل قرآنی آیات کی تعمیل کی طرح فرض ہے۔
اجتہادی اختلاف کی حیثیت:
دوسرا اہم اصول اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ اجتہاد شرعی کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر ان کا اجتہاد کسی مسئلے میں مختلف ہو جائے، ایک فریق جائز قرار دے اوردوسرا ناجائز، تو خدا کے یہاں یہ دونوں حکم درست اور جائز ہوتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو گناہ و معصیت نہیں کہہ سکتے اور اسی لئے س پر نہی عن المنکر کا قانون جاری نہیں ہوتا، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی جانب منکر شرعی نہیں اور ولیجزی الفاسقین میں درختوں کے کاٹنے یا جلانے والوں کے عمل کی توجیہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بھی فساد میں داخل نہیں، بلکہ کفار کو ذلیل کرنے کے قصد سے موجب ثواب ہے۔
مسئلہ:بحالت جنگ کفار کے گھروں کو منہدم کرنا یا جلانا اسی طرح درختوں اور کھیتوں کو برباد کرنا جائز ہے یا نہیں، اس میں فقہا کے اقوال ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ سے بحالت جنگ ان سب کاموں کا جائز ہونا منقول ہے۔ مگر شیخ ابن ہمامؒ نے فرمایا کہ یہ جواز اس وقت ہے جبکہ اس کے بغیر کفار پر غلبہ پانا مشکل ہو یااس صورت میں جبکہ مسلمانوں کی فتح کا گمان غالب نہ ہو تو یہ سب کام اس لئے جائز ہیں کہ ان سے کفار کی طاقت و شوکت کو توڑنا مقصود ہے یا عدم فتح کی صورت میں ان کے مال کو ضائع بھی ان کی قوت کو کمزور کردینے کے لئے اس میں داخل ہے۔ (مظہری) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post