اپنے دشمن کو پہچانیں

0

ہر سال دنیا بھر میں پانی کی اہمیت، اس کی ضرورت، پانی کے وسائل کی ترقی اور اس کو ذخیرہ کرنے کی ضرورت کے بارے میں بذریعہ تحریری لٹریچر، دستاویزی فلموں، گول میز کانفرنسوں او سیمینارز منعقد کر کے لوگوں کو شعور وآگاہی دی جاتی ہے۔ اس مقصد کیلئے ’’یو این سی ای ڈی‘‘ اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔ جس میں 178 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ چنانچہ ’’یو این سی ای ڈی‘‘ کی دستاویز کے باب میں پانی سے متعلق ایک مکمل اور جامع پروگرام دیا گیا، یہ پروگرام ناصرف بین الاقوامی، بلکہ ملکی اور علاقائی سطح پر محیط ہے۔ ’’یو این ای سی ای ڈی‘‘ کے اس پروگرام پر عمل درآمد اور نگرانی کیلئے ’’سی ایس ڈی‘‘ کے نام سے ایک کمیشن بنایا گیا۔ اس وقت دنیا بھر میں 900 ملین سے زائد انسان ایسے ہیں، جنہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اس لئے ایسے انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو کئی طرح کے طبی مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ ان میں سے بہت سے انسان ہر سال ایسی بیماریوں کے ہاتھوں ہلاک بھی ہو جاتے ہیں، جو آلودہ پانی استعمال کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں اربوں انسان ایسے بھی ہیں، جنہیں نکاسی آب کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ کی عالمی تنظیموں کے مطابق دنیا کے غریب ترین معاشروں میں عام شہریوں کے حالات زندگی کئی عوامل سے متاثر ہو رہے ہیں، ان میں سے سب سے اہم ماحولیاتی تباہی کا عمل، معاشی یا جنگی حالات کی وجہ سے ہجرت اور شہری آبادیوں کا بے ہنگم اور غیر منظم پھیلائو ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں عام اسپتالوں میں آدھے سے زیادہ مریض اسی لئے علاج کے لئے جاتے ہیں کہ وہ آلودہ پانی کے استعمال یا نکاسی آب کے نامناسب نظام کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایشیا اور افریقہ میں تو کئی علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں خواتین کو کسی بھی معیار کے پینے کا پانی حاصل کرنے کیلئے 6 کلو میٹر تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔
پانی نا صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں، فصلوں اور زمینوں کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان چند دن میں ہی موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے اور پانی کے بغیر زندگی بنجر اور بے آباد ہو جاتی ہے۔ پانی زندگی کا ناگزیر حصہ ہے۔ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا پانی سے گہرا تعلق ہے۔ بارشوں، طوفانوں، چشموں، ندی نالوں اور دریائوں کے پانی کو محفوظ کر کے اور اسے اپنی ضرورتوں کے مطابق استعمال کر کے اس سے فصلیں اُگا کر اور بجلی بنا کر ملک کی ترقی کو دو چند کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ یہی بے قابو پانی دنیا میں نا صرف جانی، بلکہ اربوں ڈالرز کا مالی نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔ دنیا کا ہر ملک پانی کو محفوظ بنانے اور اس کے مناسب استعمال کے لئے سرگرم عمل ہے۔ ہر ملک میں کئی محکمے اسی مقصد کیلئے کام کر رہے ہیں۔ بارش، گلیشیر، دریا، چشمے، ڈیم، پہاڑی ندی نالے اور زیر زمین پانی پاکستان کے آبی وسائل ہیں۔ ہر سال دسمبر، جنوری اور جولائی سے ستمبر تک بارشوں کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہر سال شمالی اور وسطی علاقوں میں 750 ملی میٹر جبکہ جنوبی علاقوں میں 100 ملی لیٹر بارش ہوتی ہے۔ سردیوں میں یورپ سے آنے والے بادل اور ٹھنڈی ہوائیں ترکی اور افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں، جبکہ گرمیوں میں خلیج بنگال کا مون سون بھارت سے گزر کر پاکستان میں بارشوں کا باعث بنتا ہے۔ پاکستان کا شمالی حصہ سارا سال بارش سے تر رہتا ہے۔ اس علاقے کے گلیشیر دنیا کے بڑے گلیشیروں میں شمار ہوتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے عطا کئے گئے انہی گلیشیروں کی بدولت ہمارے دریا بہتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں پانی محفوظ کرنے کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے اس علاقے میں صرف 3 چھوٹے ڈیم تھے، جس میں بلوچستان کا 1890ء میں تعمیر کردہ خوشدل خان ڈیم اور 1946ء میں بنائی گئی سین کاریز شامل ہیں۔ جبکہ پنجاب میں میانوالی کے قریب 1913ء کا تعمیر کردہ نامل ڈیم تھا۔ پاکستان بننے کے بعد 1955ء میں ڈیموں کی تعمیر کا آغاز ورسک ڈیم سے شروع ہوا اور جب بھارت نے پاکستان کے سب سے بڑے نہری نظام کو پانی کی سپلائی روک دی تو منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم تعمیر کئے گئے۔ پاکستان کے زیر زمین بھی پانی کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ پنجاب کے 79 فیصد رقبے کے نیچے صاف اور تازہ پانی ہے، جو پینے اور فصلوں کیلئے استعمال ہو سکتا ہے، جبکہ دیگر علاقوں میں نمکین اور کھارا پانی ہے۔ پنجاب میں متعدد جگہوں پر پہاڑی نمک کے قدرتی سلسلوں کی وجہ سے وہاں زیر زمین گزرنے والا پانی نمکین ہو جاتا ہے، یہ پینے اور پھلوں کے استعمال میں نہیں آتا۔ سندھ کے تقریباً 28 فیصد رقبے کے نیچے صاف اور تازہ پانی موجود ہے، جو فصلوں کے کام آتا ہے۔ بعض جگہوں پر زیر زمین پانی انتہائی بلند سطح پر ہے، جس کی وجہ سے زمینیں سیم اور تھور کا شکار ہو رہی ہیں۔ جبکہ بعض جگہوں پر زیر زمین پانی اتنا گہرا ہے کہ وہاں سے اس کو نکالنا بہت مشکل ہے۔ کچھ ایسی صورتحال صوبہ کے پی اور بلوچستان میں بھی ہے۔
پانی زندگی ہے، پینے کے پانی کی اہمیت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ شہر میں لوگوں کو قدر نہیں، جبکہ دیہات کے لوگ بوند بوند پانی کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ پانی کا بل انتہائی کم ہے، اس کے باوجود لوگ بل ادا نہیں کرتے۔ جتنا پانی مہیا کیا جاتا ہے، اس کا 40 فیصد ضائع کیا جاتا ہے۔ بوتلوں میں بند پانی کے وقتاً وقتاً نمونوں کی جانچ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ بعض بوتلوں کا پانی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ صرف لوگ اپنی تسلی کے لئے بوتلوں کا پانی استعمال کرتے ہیں۔ صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض صنعتی علاقوں میں پانی نایاب ہے، جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ نوجوان نسل میں پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے شعور بیدار کرنا ہوگا۔ صاف پانی کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے، ہر شخص بوتلوں کا پانی خرید کر نہیں پی سکتا۔
پاکستان کو آج کل پانی کی قلت کے جس بحران کا سامنا ہے، اس کے پس پشت کہیں بھارت کی پاکستان دشمنی دکھائی دیتی ہے تو کہیں پاکستانی حکمرانوں کے بے سوچے سمجھے فیصلے نظر آتے ہیں۔ دشمن سے تو کسی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی، تاہم پاکستان کے جن حکمرانوں نے اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا، بلاشبہ وہ قومی مجرم ہیں۔ جن حکمرانوں نے اپنے ادوار میں اقتصادی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا، انہوںنے بھی اپنے غیر ملکی آقائوں کے اشاروں پر ایسے احمقانہ فیصلے کئے، جن کے باعث وطن عزیز کے طویل المدت قومی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ گزشتہ کئی عشروں سے ملکی و غیر ملکی آبی ماہرین حکومت پاکستان کو بار بار خبردار کرتے آ رہے تھے کہ اگر پاکستان نے آبی وسائل کے حوالے سے منصوبہ بندی نہ کی اور بڑے ڈیم تعمیر نہ کئے تو ملک میں پانی کی قلت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ آبپاشی تو درکنار، پینے کیلئے بھی پانی وافر مقدار میں دستیاب نہ ہوگا۔ صد افسوس کہ کسی حکمران کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور ہم بحیثیت قوم ایک نئے کربلا کی طرف گامزن ہیں۔ توانائی کے شدید بحران کا سامنا کرنے کے باوجود کالاباغ ڈیم کا انتہائی مفید اور کثیر الجہتی منصوبہ سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ہماری ان تمام تر کوتاہیوں پر مستزاد ہمارا پڑوسی بھارت ہے، جس کی رگ وپے میں ابھی تک اکھنڈ بھارت کا نظریہ سمایا ہوا ہے۔ وہ پاکستان مخالف عالمی طاقتوں، غیر سرکاری تنظیموں اور خفیہ ایجنسیوں کی ساجھے داری سے پاکستان کے دریائوں پر جگہ جگہ ڈیم اور آبی ذخائر تعمیر کر کے دریائوں کی دھرتی کو صحرائوں میں تبدیل کرنے کی مذموم سازش پر عمل پیرا ہے۔
ماہرین سالہا سال سے پاکستانی ارباب اختیار کو بھارت کی آبی جارحیت کے حوالے سے متنبہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ ہوش کے ناخن لیں، وگرنہ پاکستانی قوم پانی کی قلت کے باعث ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بھوکی پیاسی مر جائے گی۔ انہوں نے تو حکومت، فوج اور قوم سے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بھارت کو پاکستانی دریائوں پر ڈیم بنانے سے روکنے کی خاطر ہمیں اپنے ازلی دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ بے بسی اور ذلت کی موت سے بہتر ہے کہ بہادری سے لڑتے ہوئے جان دے دیں۔ ہمیں آزادی حاصل کیے 70 برس گزر چکے ہیں، مگر ابھی تک ہماری معیشت کی بنیاد زراعت پر ہے اور پانی کے بغیر زراعت کا تصور نا ممکن ہے۔ بھارت ہمیں پانی سے محروم کر کے ہماری زرخیز زمینوں کو بنجر بنانے پر تلا ہوا ہے۔ عالمی آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ حکمراں قومی معاملات میں مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے مسئلے پر بھی صوبوں میں مفاہمت پیدا کر کے اس عظیم منصوبے کی تعمیر کا فی الفور آغاز کر دیں۔ 2004 ء میں بھارت کے ایک سابق آرمی چیف نے بیان دیا تھا کہ پاکستان کو تباہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہاں کالاباغ ڈیم نہ بننے دیا جائے۔ پاکستان کی زراعت کیلئے کالاباغ ڈیم شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر میں اصل رکاوٹ بھارت ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More