تاریخ شاہد ہے کہ اسلام سے پہلے عورت کی حیثیت محض ایک کھلونے کی سی تھی۔ خاص طور پر فارس کے ساسانی معاشرے میں تو محرم رشتوں کا تقدس ہی ختم ہو چکا تھا۔ کئی ساسانی حکمرانوں نے اپنی بہن اور بیٹی کو بیوی کا درجہ دے رکھا تھا۔ پھر جلد ہی مزدک کا فتنہ ظہور پذیر ہوا، جس نے ایرانی معاشرے کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔ پانچویں صدی عیسوی میں نیشا پور میں پیدا ہونے والا ایرانی فلسفی مزدک ابتدا میں زرتشت کا پیروکار تھا، لیکن بعد ازاں اس نے اپنا نیا مذہب وضع کر لیا۔ اس شخص نے جائیداد اور عورت کے حوالے سے عجیب فلسفہ متعارف کرایا۔ مزدک کے اس فلسفے کے بارے میں جسٹس (ر) پیر کرم شاہ الازہریؒ اپنی کتاب ’’ضیاء النبیؐ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’تمام انسان مساوی ہیں، کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں۔ ہر وہ چیز جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے بالا ترکر دے، وہ اس قابل ہے کہ اسے مٹا کر رکھ دیا جائے۔ مزدک نے کہا کہ دو چیزیں ہیں، جو انسان کے درمیان میں ناجائز امتیازات کی دیواریں چنتی ہیں، جائیداد اور عورت۔ اس لیے کسی کی جائیداد پر کسی کا حق ِ ملکیت نہیں اور نہ کوئی عورت کسی ایک شخص سے نکاح کا حق رکھتی ہے۔ تمام لوگوں کو جائیداد سے فائدہ اٹھانے اور عورت سے لطف اندوز ہونے کا حق ہے۔ اس وجہ سے لوگ اس کی تحریک کا حصہ بنے۔ جب فارس میں قائم ساسانی سلطنت کا حکمران کیقباد کسریٰ مزدک کے دامِ تزویر میں آ گیا اور اس کی تحریک کو حکومتی سرپرستی حاصل ہوئی تو مزدک ایک آدمی کی بیوی دوسرے کے حوالے کر دیتا۔ اسی طرح مال، کنیزیں، غلام اور زرعی زمینیں بھی لوگوں میں بانٹتا۔ اس کی بے حیائی کی انتہا یہاں پر پہنچی کہ اس نے کیقباد کو اس کی بیوی کے متعلق کہا کہ یہ میرے ساتھ رات گزارے گی۔ کیقباد نے بھی اس بات کو قبول کر لیا۔ وہ خاتون نوشیرواں کی ماں تھی۔ اس نے منت سماجت اور مال و دولت کے بدلے ایران کی مادر ملکہ کو آبروریزی سے بچایا۔ کیقباد کے مرنے کے بعد نوشیرواں نے مزدک کو قتل کرا دیا۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بیٹا اپنے باپ اور باپ اپنے بیٹے کو نہ پہچانتا تھا۔‘‘ (جلد اول، ص 89)
مزدک نے اپنے اس مادر پدر آزاد فلسفے کو باقاعدہ مذہب کی صورت دی کہ عورت ایک مشترکہ متاع ہے، لہٰذا ہر شخص اس کو استعمال کر سکتا ہے۔ اس میں نکاح کی حدود و قیود کی ضرورت نہیں۔ ان میں ماں، بہن اور بیٹی وغیرہ کا بھی کوئی امتیاز نہیں۔ عورت صرف عورت ہے اور ہر شخص کی شہوت رانی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہی حال خطہ عرب میں تھا، جہاں باپ کے مرنے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی مائوں کو بھی اپنے گھر میں ڈال لیتا تھا۔ گھر میں بیٹی کی پیدائش کو باعثِ ذلت سمجھتے ہوئے آنے والی ننھی جان کو زندہ درگور کردیا جاتا۔ صرف عورت کی تذلیل پر ہی کیا موقوف، بلکہ اُم القریٰ میں امام الانبیائؐ کی جلوہ آرائی سے قبل خطہ عرب، روم اور فارس میں پوری انسانیت ہی سسک رہی تھی۔ حضور اقدسؐ کی تشریف آوری کے بعد انسانیت کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اس کے قدم لامکاں تک جا پہنچے، جہاں جاتے ہوئے سید الملائکہ کے بھی پَر جلتے تھے۔ روح القدسؑ دیکھتے رہ گئے کہ رب کبریا نے بشر کو کتنے بڑے اعزاز سے نوازا۔ اسی لمحے کو تصور کرتے ہوئے مولانا کوثر نیازیؒ نے کہا:
تیری عظمت کی جھلک دیکھ کے معراج کی رات
کب سے جبریل کی خواہش ہے بشر ہو جائے
آقاؐ تشریف لائے تو انسانیت کو شرف ملا۔ حضور اقدسؐ آئے تو آدمیت کو احترام ملا۔ عبد اللہ کے دُرِ یتیمؐ نے سماج کے کمزور و مقہور طبقات تو اپنی جگہ، جانوروں تک کے حقوق کے تحفظ کا درس بھی دیا۔ سیدہ آمنہ کے لخت جگرؐ کی بعثت کے بعد عورت کا سماجی مرتبہ بلند ہوا۔ اسلام نے باپ کی رضا کو اگر خدا کی رضا کے برابر قرار دیا تو دوسری طرف پوری جنت اٹھا کر ماں کے قدموں تلے رکھ دی۔ بیوی کو انسان سازی جیسی اعلیٰ ترین ذمہ داری تفویض کرکے مرد کو اس کا نگہبان بنا دیا اور یہ محض باتیں اور نعرے نہیں تھے، بلکہ آقائے کریمؐ نے خود اس پر عمل کر کے دکھایا۔ بیٹی دربارِ رسالت میں حاضر ہوتیں تو آپؐ کھڑے ہو کر استقبال فرماتے۔ بہن شیما آئیں تو ان کے لیے اپنی ردائے مبارک بچھا دی۔ دشمن کی بیٹی سامنے لائی گئی تو یہ کہہ کر اسے اپنی کملی اوڑھا دی کہ بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے، چاہے کافر کی ہی کیوں نہ ہو۔
کیا عورت کی آزادی کے نعرے لگانے والے مداری ایسی کوئی مثال پیش کر سکتے ہیں؟ عورت کو کھلونا بنا کر شو کیس کی زینت بنانے والا مغرب مسلمانوں کے خلاف خواہ جتنا بھی پروپیگنڈا کرتا رہے، لیکن یہ ایک بین حقیقت ہے کہ آج بھی انسانیت اور عورت کا سب سے بڑا خیر خواہ حضورؐکا امتی ہے۔ آج بھی انسان کے درد کو سب سے زیادہ آقاؐ کا کلمہ پڑھنے والا مسلمان محسوس کرتا ہے۔ اگر اس گئے گزرے دور میں بھی انسانیت سے محبت، انسانوں سے ہمدردی اور عورت کے احترام کے مظاہر دیکھنے ہوں تو برطانوی خاتون صحافی مریم ریڈلے کی کتاب In The Hands Of Taliban پڑھ لیں۔ وہ بتائیں گی کہ انسانیت اور عورت کا احترام کرنے والے لوگ کیسے ہوتے ہیں اور اگر انسانیت کی مٹی پلید کرنے والوں کو دیکھنے کی خواہش ہو تو اس کے لئے باگرام کے عقوبت خانے سے لے کر عراق کے زندانوں اور گوانتانا موبے تک انسانیت کے دشمنوں کے ظلم و جور کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ اس کا ثبوت مراد کرناز، ملا عبد السلام ضعیف اور عبد الرحیم مسلم دوست کی آپ بیتیاں ہیں، جنہیں پڑھ کر دل دہل جاتا ہے کہ مسلمانوں اور اہل مشرق کو انسانیت کا سبق دینے والے خود انسانیت کے دامن پر کتنا بڑا دھبہ ہیں۔
پاکستان میں کچھ مخصوص عناصر کی طرف سے حقوقِ نسواں کے لیے شور شرابہ تو پہلے بھی ہوتا تھا، اگرچہ تب بھی زیادہ چرچا اُن بدنصیب خواتین کے حقوق کا ہی ہوتا تھا، جو اپنے والدین کے سر میں خاک ڈال کر آشنا کے ساتھ گھر سے بھاگتی تھیں۔ لیکن چند روز پہلے پاکستان میں عورت آزادی مارچ کا انعقاد کرنے والے عناصر کا اصل ایجنڈا تو اب کھل کر سامنے آیا ہے۔ درحقیقت یہ لوگ مزدک ایرانی کے پیروکار ہیں اور بالکل اسی نہج پر پاکستانی عورت کو بھی مشترکہ پراپرٹی بنانا چاہتے ہیں تاکہ پاکستانی معاشرے اور خاندانی نظام کو جڑوں سے ہلایا جا سکے۔ اس مارچ میں شرکت کرنے والے ایک بڑے میاں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس میں موصوف نے عورت کے تمام مسائل کا ذمہ دار نکاح کو قرار دیا ہے۔ اس نے یہ بھی ’’انکشاف‘‘ کیا کہ برصغیر میں نکاح کی رسم بھی انگریز لے کر آئے!! اس سے پہلے اس کا تصور نہیں تھا۔
اس مارچ میں جو کتبے لائے گئے، ان پر درج تحریریں اس امر کی غماز ہیں کہ مغربی تہذیب کے دلدادہ ان عناصر کو عورت کے حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ یہ پاکستانی معاشرے کو سیکس فری معاشرہ بنانا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد کے لیے عورت آزادی مارچ کیے جا رہے ہیں۔ نکاح کے خلاف زہر اگلا گیا۔ شرمین عبید چنائے کی طرف سے شادی شدہ عورتوں کو خلع لینے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ خلع اور طلاق کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ چادر اور چار دیواری کو ذہنی بیماری قرار دیا جا رہا ہے۔ عورت کی شادی کے بجائے اس کی آزادی کو زیادہ اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سوچ کو فروغ دیا جا رہا ہے کہ عورت بچے پیدا کرنے والی مشین نہیں ہے، بلکہ وہ طلاق اور خلع کے بعد خود کو زیادہ آزاد اور خوش محسوس کرتی ہے۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ عورت کے لیے اس سے بڑا دھوکہ اور کوئی نہیں ہے۔ یہ صورت حال درحقیقت ہماری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے چیلنج ہے۔ انہیں اس فریب کو سمجھ کر اس کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی، کیونکہ یہ ان کے حقوق چھیننے کی سازش ہے۔
یاد رہے کہ تحفظ حقوقِ نسواں اور انسان دوستی کے نعروں سے بڑا فراڈ اور کوئی نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جب حسینہ واجد حکومت نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنمائوں کو دار پر لٹکانے کا سلسلہ شروع کیا، اُس وقت ہم نے ایک نیوز رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں پاکستان میں انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیداروں زہرہ یوسف اور ثمر من اللہ سے لے کر آئی اے رحمن تک کئی لوگوں سے بات کی کہ وہ اس ظلم پر خاموش کیوں ہیں؟ تو ان میں سے اکثر نے یہ جواب دیا کہ ہم صرف پاکستان میں انسانی حقوق کے ذمہ دار ہیں۔ بنگلہ دیش میں کیا ہو رہا ہے، اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ انسان دوستی اور عورت کی آزادی کے نعرے لگانے والے عناصر کا اصل چہرہ یہی ہے۔ ہم زیادہ دور کیوں جائیں، آپ دیکھتے رہئے گا کہ ایک مسیحی دہشت گرد کے ہاتھوں نیوزی لینڈ میں درجنوں مسلمانوں کی شہادت پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے کتنے ’’انسان دوست‘‘ سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کے تحت یہی ضابطہ وضع کیا گیا کہ انسان دوستی کا مسلمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ہر صورت انسان دشمن ہی کہلاتا ہے، خواہ وہ خود قتل کیوں نہ ہو رہا ہو۔ اس کا عملی مظاہرہ ہم کچھ عرصہ پہلے لاہور میں وقوع پذیر ہونے والے سانحہ یوحنا آباد کے موقع پر دیکھ چکے ہیں، جب اُس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے یوحنا آباد میں مسیحیوں کی طرف سے دو مسلمانوں کو زندہ جلانے کے سانحے کو پارلیمان میں کھڑے ہو کر دہشت گردی قرار دیا تو ایک نام نہاد دانشور نے اپنے کالم میں لکھا کہ چوہدری نثار کو اس سانحے کو دہشت گردی نہیں کہنا چاہئے، کیونکہ اس طرح دہشت گردی کے لیے عالمی سطح پر متعین کردہ بیانیہ متاثر ہوتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ہم اپنے وطن میں بارہا یہ مظاہر دیکھ چکے ہیں کہ مغربی طاقتوں کے فنڈز پر پلنے والے ان عناصر کے ہاں انسان دوستی کے جذبات میں اُبال صرف تب آتا ہے، جب کوئی ناہنجار اسلام کے خلاف زہر اگلتا ہے، جب کوئی لعین وجہِ تخلیقِ کائنات جنابِ رسول کریمؐ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں دریدہ دہنی کی جسارت کرتا ہے اور جب کوئی بدبخت ردائے نبوت پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت کرتا ہے۔
مسلمانوں کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہئے کہ عورت آزادی مارچ جیسی سرگرمیاں دراصل مغربی اور اسلامی تہذیب کے مابین جاری جنگ کا حصہ ہیں۔ مادر پدر آزاد مغربی تہذیب کے علمبردار اور ان کے دیسی ٹائوٹ میدان جنگ سے لے کر تہذیبی و ثقافتی سطح تک اسلامی تہذیب کو مغلوب کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اس خطرناک صورت حال میں اسلامی تہذیب کی بقا و سلامتی کا واحد راستہ یہی ہے کہ مسلمان آقائے کریمؐ کی تعلیمات اور خاص طور پر سنتِ رسولؐ کو حرزِجاں بنا لے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر لحظہ یہ دعا بھی مانگتے رہنا چاہئے کہ باری تعالیٰ ہمارا ایمان سلامت رکھئے اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ ہی اپنے پاس بلا لیجئے۔٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post