اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اسٹاک مارکیٹ سے چالیس کروڑ نواسی لاکھ روپے کا سرمایہ نکال لیا۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں اس سال جولائی تا جنوری مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری تقریباً پچھتر فیصد کم رہی۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ساڑھے سترہ فیصد کی کمی کے ساتھ ایک ارب پینتالیس کروڑ ڈالر تھی۔ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران چار ارب چودہ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی، جبکہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال اس عرصے میں تین ارب نو کروڑ ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہوئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان اعداد و شمار کو کسی نجی ادارے یا حکومتی مخالف حلقوں نے پیش نہیں کیا ہے، بلکہ پاکستان کے مرکزی مالیاتی ادارے اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ میں اقتصادی زبوں حالی کے یہ ہولناک انکشافات کئے گئے ہیں۔ ان کے نتیجے میں وطن عزیز کے غریب عوام مزید مشکلات و مسائل سے دوچار ہوں گے، اس کا اندازہ نہیں، یقین اس رپورٹ سے بھی کیا جاسکتا ہے جو ادارہ شماریات پاکستان نے مہنگائی کا ہفتہ وار جائزہ لیتے ہوئے جاری کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چودہ مارچ 2019ء کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں پونے بارہ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ملک کے سترہ بڑے شہروں میں تریپن اشیاء کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ تیئس اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، گیارہ کی قیمتوں میں کمی اور انیس اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ جو چیزیں مہنگی ہوئیں، ان میں پیاز، دال مونگ، واشنگ سوپ، کپڑا، کیلے، آٹا، چینی، لٹھا، باسمتی چاول، خشک دودھ، دہی، لہسن، چائے، خوردنی تیل اور بکرے کے گوشت شامل ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے بڑبولے ترجمان فواد چوہدری قوم کو یہ بتائیں کہ روز بروز ان کی جماعت تحریک انصاف کے وعدے غلط اور دعوے ٹھس کیوں ثابت ہو رہے ہیں؟ کیا وہ اس طرح عوام کی حمایت سے بتدریج محروم نہیں ہوگی؟ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صوبائی اسمبلی نے اپنے وزیراعلیٰ، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی سمیت حکمرانی طبقے کی تنخواہوں میں اضافے کا بل جو پانچ منٹ میں پاس کیا، ان کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کیا تحریک انصاف کی حکومت کے پانچ برسوں میں قیمتیں بڑھانے کا یہ رحجان برقرار رہے گا؟ کیا اسی تبدیلی کا ووٹروں سے وعدہ کیا گیا تھا اور کیا مدینہ جیسی فلاحی ریاست اسی طرح قائم کی جائے گی؟ بجلی کے نرخوں میں کمی کا سلسلہ ایک روز کے لیے بھی نہیں رکا ہے۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے نیپرا سے درخواست کی ہے کہ ایک روپیہ پینتالیس پیسے فی یونٹ مزید بجلی مہنگی کرنے کی اجازت دی جائے۔ صارفین پر گرانی کے ان تابڑ توڑ حملوں کے تناظر میں وزیر بجلی و توانائی عمر ایوب کے اس بیان کو جھوٹ اور فریب کے سوا کیا نام دیا جائے کہ حکومت عوام کو بجلی سستی فراہم کرنے کے اقدامات کررہی ہے، وہ دن دور نہیں جب پاکستان توانائی کی ہول سیل مارکیٹ بن جائے گا۔ ایسے بے بنیاد دعووں اور اعلانات پر خواجہ آصف کا یہ جملہ دوہرا دینا کافی ہے کہ کچھ شرم ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے۔
جہاں تک گزشتہ سات ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری میں پچھتر فیصد کمی کا تعلق ہے تو اس سے وزیر اعظم عمران خان کے ان دعووں کی قلعی بھی کھل جاتی ہے کہ وہ اور ان کی حکومت غیر ممالک میں بہت مقبول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برسر اقتدار آنے کے بعد بعض ممالک نے یہ توقعات وابستہ کرلی تھیں کہ عمران خان پاکستان کو مغربی تہذیب کے مطابق ایک آزاد خیال ملک بنانے کی کوشش کریں گے۔ ہم نے ابتدا ہی میں ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ملک کے مسلم تشخص کو بہرحال برقرار رکھیں، لیکن انہوں نے اس سے بھی آگے بڑھ کر اکثر سیاستدانوں کی طرح یہ پُرفریب اعلان کر کے اہل وطن کو خوش کر دیا کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنائیں گے۔ ان کے اس جھوٹے دعوے پر ایک طرف غیر ملکی طاقتیں ان سے ناراض ہوئیں تو دوسری جانب اس اعلان کی جانب ذرا بھی پیش رفت نظر نہ آئی، بلکہ اس کے بالکل برعکس اقدامات ہوتے رہے تو پاکستان کے لوگ بھی عمران خان اور ان کی حکومت سے بد دل ہوتے چلے گئے۔ درمیان میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے جنگی جنون اور پاکستان کی فضائی اور بحری حدود کی بھارتی خلاف ورزی نے عمران خان کی حکومت کو کچھ سہارا دیا کہ اپوزیشن جماعتوں سمیت ملک کے تمام طبقے بھارتی جارحیت کے مقابلے میں متحد ہوگئے۔ جنگ کے بادل اگرچہ بہت حد تک چھٹ گئے ہیں، لیکن وزیر اعظم عمران خان اب بھی بھارتی حملے کا ہوا دکھا کر سب کی حمایت جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا طرز تخاطب ملاحظہ ہو کہ وہ بھارتی وزیر اعظم مودی سے تو بات کر سکتے ہیں، لیکن چوروں سے نہیں؟ انہوں نے کہا کہ اگلے تیس دنوں میں پاکستان کو بھارت سے فوجی کارروائی کا خطرہ ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما بھی عمران خان کو سمجھانے کی کوشش نہیں کرتے یا ناکام ہیں کہ پاکستان کو ماضی کی طرح آج بھی اصل خطرہ لٹیرے حکمرانوں، سیاستدانوں اور نوکر شاہی سے ہے۔ تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات سے تو پورا ملک واقف ہے، لیکن اس کے مظاہر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کے اے ٹی ایم کہلانے والے جہانگیر ترین کے دو بڑے دھڑوں کی صورت میں نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ عمران خان کی بیرونی مقبولیت کا گراف گرنے کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو اب تک کوئی قرضہ نہیں دیا ہے۔ سعودی عرب کے بعد متحدہ عرب امارات سے انہوں نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں، لیکن اس نے تین ارب ڈالر کا ادھار تیل دینے سے معذرت کر لی ہے۔ ادھر سے مایوسی کے بعد عمران خان کی حکومت نے چین سے دو ارب ڈالر کے ڈپوزٹس حاصل کرنے کیلئے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ موجودہ حکومت کی بدقسمتی میں اخباری صنعت کے بڑھتے ہوئے بحران نے بھی زبردست اضافہ کیا ہے، جسے حل کرنے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ ذرائع ابلاغ سے بے روزگار ہونے والے اور پانچ ماہ سے تنخواہوں سے محروم صحافی بھی حکومت کی حمایت سے دست کش ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ تمام واقعات اور حالات ثابت کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت ملک کے اندر اور باہر، ہر جگہ اعتماد کھوتی جا رہی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی نہایت ناقص کارکردگی ہے، جس میں کسی بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔٭
٭٭٭٭٭
Prev Post