حضرت جنید بغدادیؒ کا ایک مرید کئی برسوں سے آپؒ کی خدمت میں مصروف تھا۔ ایک دن آپؒ اپنے اس مرید کے ساتھ جنگل میں جا رہے تھے، اتفاق سے اس روز سخت گرمی پڑ رہی تھی۔ جب کچھ دیر تک مسلسل دھوپ میں سفر جاری رہا تو مرید کی زبان سے بے اختیار نکل گیا: ’’آج کی گرمی ناقابل برداشت ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی حضرت جنید بغدادیؒ ٹھہر گئے اور نہایت پر جلال لہجے میں اپنے مرید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’تو نے اتنے دنوں کی صحبت میں صرف شکایت ہی کرنا سیکھا ہے؟‘‘
مرید اپنے پیرو مرشد کی گفتگو کا مفہوم نہیں سمجھ سکا اور دوبارہ موسم کی سختیوں کی شکایت کرنے لگا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے غیظ و جلال میں اضافہ ہوگیا۔ ’’اپنی دنیا کی طرف واپس لوٹ جاؤ تو ہماری صحبت کے قابل نہیں ہے۔‘‘
مختصر یہ کہ اس مرید کو خانقاہ سے نکال دیا گیا۔ دوسرے خدمت گاروں نے ڈرتے ڈرتے سبب پوچھا تو حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’موسم کیا ہے؟ دوسرے الفاظ میں حکم خداوندی ہے۔ ماہ و نجوم اپنی مرضی سے طلوع و غروب نہیں ہوتے، سورج میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنے ارادے سے آگ برسانے لگے۔ جب کوئی بندہ سردی یا گرمی کی شکایت کرتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ اپنے خالق کے فیصلوں پر راضی بہ رضا نہیں ہے۔ اس لئے ہم بھی ایسے شخص کو عزیز نہیں رکھتے اور وہ ہماری صحبت کے قابل نہیں ہے۔‘‘
ایک طرف حضرت جنید بغدادیؒ کے جاہ و جلال کا یہ عالم تھا اور دوسری طرف مریدوں کے ساتھ محبت کی یہ کیفیت تھی کہ آپؒ ایک لمحے کے لئے بھی ان کے حالات سے بے خبر نہیں رہتے تھے۔ حضرت جنید بغدادیؒ کا ایک مرید بصرہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا تھا۔ ایک دن اس کے دل میں کسی گناہ کا خیال گزرا۔ شیطانی وسوسہ اس قدر شدید تھا کہ حضرت جنید بغدادیؒ کا مرید کسی طرح اس خیال فاسد پر قابو نہیں پاسکتا تھا۔ آخر ایسی کشمکش میں پوری رات گزر گئی۔ صبح اٹھا تو اسے اپنے اندر ایک ناگوار سی تبدیلی محسوس ہوئی۔ پھر اسی ذہنی کشمکش میں اس نے آئینہ اٹھا کر دیکھا تو خوف و دہشت سے اس کی چیخ نکل گئی، حضرت جنید بغدادیؒ کے مرید کا چہرہ مسخ ہو چکا تھا۔
’’خداوندا! لوگ مجھے کیا کہیں گے؟ اپنی بگڑی ہوئی صورت لے کر ان کے سامنے کیسے جاؤں گا؟ ساری دنیا میں میری پارسائی کے قصے مشہور ہیں۔ بصرہ کے لوگ مجھے اس حالت میں دیکھیں گے تو یقیناً کہیں گے کہ میں چھپ چھپ کر گناہ کرتا تھا اور مجھے ان ہی گناہوں کی سزا دی گئی ہے۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ کا مرید زار و قطار روتا رہا، مگر اس کا مسخ شدہ چہرہ اپنی اصلی حالت پر واپس نہیں آیا۔
بصرہ کے بہت سے لوگ اس کی صحبت میں بیٹھا کرتے تھے۔ پھر جب دوپہر کا وقت گزرگیا تو حسب معمول لوگ آنا شروع ہوئے۔ اس شخص نے شرم و رسوائی کے سبب دروازہ بند کرلیا۔ اگر کوئی عقیدت مند دروازہ کھولنے کیلئے کہتا تو وہ شخص غضبناک لہجے میں جواب دیا:
’’ میری طبیعت خراب ہے، آج میں کسی سے نہیں ملوں گا، تم لوگ واپس چلے جاؤ۔‘‘
’’شیخ صاحب! اگر آپ کی طبیعت خراب ہے تو ہم شہر بصرہ کے بڑے سے بڑے طبیب کو آپ کے پاس لے آتے ہیں۔‘‘ عقیدت مند درخواست کرتے۔
مگر وہ شخص کسی کو کیا بتاتا کہ اسے کس قسم کا مرض لاحق ہے۔ نتیجتاً اپنے عقیدت مندوں کو جھڑک دیتا۔ ’’مجھے تنگ نہ کرو، میری ایسی بیماری ہے کہ اس پر کسی طبیب کا دوا کارگر نہیں ہو سکتی۔‘‘
آخر لوگ مختلف انداز میں چہ مگوئیاں اور سرگوشیاں کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔ حضرت جنید بغدادیؒ کے مرید کا پورا دن شدید بے چینی اور اضطراب میں گزرا، رات بھر توبہ و استغفار کرتا رہا۔ دوسرے دن آئینے میں اپنا چہرا دیکھا تو سیاہی کسی قدر کم ہوگئی تھی۔ مرید کو خوشی کا ہلکا سا احساس ہوا، مگر ابھی وہ انسانی مجمع میں جانے کے قابل نہیں تھا۔
عقیدت مند دوسرے روز بھی آئے، مگر اس شخص نے ایک ہی جواب دیا ’’ابھی میں تم لوگوں سے ملاقات نہیں کر سکتا، میری بیماری بدستور ہے۔ دعا کرو کہ مجھے اس مرض سے نجات حاصل ہو جائے۔‘‘
عقیدت مند تو خود شیخ کی دعاؤں کے محتاج تھے، شیخ کی صحت کے بارے میں کیا دعا کرتے؟ ذہن میں ہزاروں اندیشے لئے ہوئے واپس چلے گئے۔
دوسرے دن چہرے کی سیاہی کچھ اور کم ہوگئی۔ پھر تیسرے روز اس شخص کا چہرہ اصلی حالت پر لوٹ آیا اور پوری آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگا۔ بار بار آئینہ دیکھتا تھا اور حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتا تھا۔ ’’خداوند! تو نے مجھے اپنے بندوں کے درمیان رسوا ہونے سے بچالیا۔‘‘
چوتھے دن وہ اپنے عقیدت مندوں کے آنے کا انتظار کررہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ حضرت جنیدبغدادیؒ کے مرید نے دروازہ کھولا تو ایک اجنبی شخص کو اپنے سامنے موجود پایا۔
’’میں بغداد سے تمہارے نام حضرت شیخ کا خط لے کر آیا ہوں۔‘‘ اجنبی شخص نے کہا۔
پیر و مرشد کا نام سن کر وارفتہ ہوگیا۔ اس نے اجنبی کے ہاتھ سے حضرت جنید بغدادیؒ کا خط لے لیا اور اسے بار بار بوسہ دینے لگا۔ پھر جب اس کی یہ اضطرابی کیفیت کم ہوئی تو اس نے اجنبی سے بیٹھنے کے لئے کہا:
’’مجھے کچھ ضروری کام ہیں، اس لئے زیادہ ٹھہر نہیں سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر اجنبی چلا گیا۔
اجنبی کے جاتے ہی مرید نے پیر و مرشد کا خط کھولا اور پڑھنے لگا۔ جب وہ آخری لفظ تک پہنچا تو اس پر رقت طاری ہوگئی۔ پھر وہ اس قدر رویا کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنے مرید مرشد کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا تھا۔
’’میرے عزیز! تم نے مجھے یہ کس کام پر لگادیا؟ میں تین دن سے دھوبی کا کام کر رہا ہوں اور مسلسل تمہارے چہرے کی سیاہی دھو رہا ہوں۔ یاد رکھو کہ مرشدوں کا محاسبہ بہت سخت ہوتا ہے، ان کے دل میں گناہ کا خیال گزرنا ایسا ہی ہے جیسے وہ گناہ کے مرتکب ہوگئے ہیں۔‘‘
اس واقعے سے ان لوگوں کو سبق حاصل کر لینا چاہئے جو پیری اور مریدی کے کاموں میں مصروف ہیں، مگر اس رشتے کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ حقیقی پیر وہ ہے کہ مشرق میں رہتے ہوئے بھی اپنے اس مرید پر نظر رکھے جو ہزاروں میل کے کسی گوشے میں آباد ہے۔ اگر یہ روحانی سلسلہ اس طرح قائم نہیں رہتا تو پھر ’’مرید اور پیر‘‘ کے اس رشتے کی کوئی حقیقت نہیں۔
حضرت جنید بغدادیؒ کا مشہور قول ہے کہ عالموں کا سارا کام دو کلمات پر منحصر ہے۔
ایک ملت کی اصلاح اور دوسرے مخلوق کی خدمت۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post