حضور اقدسؐ کی ہمسائیگی:
سیدنا عقبہ بن عامر جہنیؓ فرماتے ہیں کہ ’’چند روز کے بعد میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’تمہارا برا ہو۔ کیا تم ان چند حقیر سی بکریوں کو رسول اکرمؐ کی صحبت اور ان سے براہ راست و بالمشافہ دین سیکھنے پر ترجیح دینا چاہتے ہو۔‘‘ پھر میں اپنی بکریوں سے کنارہ کش ہو کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گیا تاکہ وہاں پہنچ کر رسول اکرمؐ کے زیر ہمسائیگی مسجد نبویؐ میں قیام کروں۔‘‘
حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ جس وقت یہ اہم فیصلہ کر رہے تھے، اس وقت ان کے دل میں بات کھٹکی بھی نہ ہوگی کہ چند سال گزرنے کے بعد وہ اکابر صحابہؓ میں سے ایک زبردست عالم اور بڑے قراء میں سے ایک مشہور قاری، عظیم فاتحین میں سے ایک نامور فاتح اور قابل ذکر والیان اسلام میں سے ایک کامیاب والی شمار ہو جائیں گے اور جب وہ اپنی بکریوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف جا رہے تھے تو ان کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آئی ہوگی کہ وہ ام الدنیا … دمشق … کو فتح کرنے والے لشکر کے ہراول دستے میں شامل ہوں گے اور اس کے سرسبز و شاداب باغات کے درمیان باب توما کے پاس اپنے لئے ایک شاندار محل تعمیر کروائیں گے، نیز وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ دنیا کے سبز نگینہ اور اس کے والی… مصر … کو فتح کرنے والی فوج کے قائدین میں سے ایک قائد ہوں گے اور وہاں جبل مقطم کی جڑ میں ایک خوبصورت مکان بنوائیں گے۔ یہ ساری باتیں مستقبل کے سینے میں پوشیدہ تھیں اور خدائے تعالیٰ کے سوا کوئی بھی انہیں نہیں جانتا تھا۔
ردیف رسولؐ:
مدینہ منورہ آکر حضرت عقبہ بن عامرؓ نے مستقل طور پر رسول اکرمؐ کی صحبت اختیار کر لی۔ وہ سائے کی طرح ہمیشہ آپؐ کے ساتھ رہتے۔ آپؐ جہاں کہیں تشریف لے جاتے، آپؐ کے خچر کی لگام ان کے ہاتھ میں ہوتی۔ آپؐ جدھر بھی رخ کرتے، وہ ہمیشہ آپؐ کے آگے چلتے اور بسااوقات آپؐ انہیں اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیتے تھے، جس کی وجہ سے وہ ’’ردیف رسول اکرمؐ‘‘ کے لقب سے پکارے جانے لگے۔ بارہا ایسا بھی ہوتا کہ آنحضورؐ خود اپنی سواری سے اتر جاتے تاکہ وہ سوار ہو جائیں اور آپؐ خود پا پیادہ چلیں۔ خود ان کا بیان ہے کہ
’’ایک دفعہ میں رسول اکرمؐ کے خچر کی لگام تھامے مدینہ کے ایک بن میں آپؐ کے آگے چل رہا تھا۔ آپؐ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’عقبہ! کیا تم سوار نہیں ہو گے؟‘‘
میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں ’’ نہیں‘‘ مگر پھر اس خوف سے کہ کہیں اس میں حضور اکرمؐ کی نا فرمانی نہ ہو جائے، میں نے کہا: ’’جی ہاں! اے خدا کے نبیؐ‘‘
تب آپؐ اپنے خچر سے اتر آئے اور میں آپؐ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے سوار ہو گیا اور آپؐ پیدل چلنے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نیچے اتر آیا اور رسول اکرمؐ سوار ہو گئے پھر آپؐ نے فرمایا:
’’عقبہ! میں تم کو دو بے مثل سورتیں بتائوں؟‘‘
میں نے کہا ’’ہاں اے خدا کے رسولؐ، ضرور بتائیں۔‘‘
تب آپؐ نے مجھے ’’سورۃ الفلق‘‘ اور ’’سورۃ الناس‘‘ پڑھائی۔ اس کے بعد جب نماز کھڑی ہوئی تو آپؐ نے امامت فرمائی اور انہی دونوں سورتوں کو اس نماز میں پڑھا اور مجھ سے فرمایا:
’’سونے سے پہلے اور نیند سے بیدار ہونے کے بعد ان سورتوں کو ضرور پڑھ لیا کرو۔‘‘
اس کے بعد سے میں زندگی بھر اس وظیفے پر عمل پیرا رہا۔ حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ نے صرف دو چیزوں علم اور جہاد پر اپنی تمام توجہ مرکوز کر دی تھی اور اپنی تمام ظاہری اور باطنی صلاحیتوں کو ان کے لئے وقف کر دیا تھا۔ وہ علم کے گہرے اور میٹھے چشمۂ نبوتؐ سے خوب خوب سیراب ہوئے اور مختلف اصناف علم میں رسول اقدسؐ سے کسب فیض کیا، حتیٰ کہ قرآن و حدیث، فقہ و فرائض، ادب و فصاحت اور شعر و شاعری میں درجہ کمال کو پہنچ گئے۔
حضرت عقبہؓ نہایت خوش گلو شخص تھے۔ قرآن نہایت خوش الحانی اور ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ جب رات کا سناٹا چھا جاتا اور فضا پُر سکون اور خاموشی کی چادر تن جاتی تو یہ کتاب الٰہی کی طرف متوجہ ہو جاتے اور اس کی آیات کی تلاوت شروع کرتے تو صحابہ کرامؓ ان کی قرأت کو سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہو جاتے، اس سے بے حد متاثر ہوتے اور خدا کے خوف سے ان کے دلوں میں سوز و گداز پیدا ہو جاتا اور ان کی آنکھیں بے تحاشا اشک ریز ہو جاتیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post