وجیہ احمدصدیقی
وزیراعظم عمران خان نے عیسائی دہشت گرد کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے پاکستانی نعیم رشید کو قومی اعزاز سے نوازنے کا اعلان تو کر دیا۔ لیکن کئی دن گزرنے کے باوجود اب تک یہ نہیں بتایا گیا کہ نعیم رشید شہید اور ان کے صاحبزادے کے لئے کون سا اعزاز دیئے جانے کا فیصلہ ہوا ہے اور یہ اعزاز کب دیا جائے گا؟ کون یہ اعزاز وصول کرے گا؟۔ امید تھی کہ یہ اعزاز 23 مارچ کو ہی دیا جائے گا۔ کیونکہ 23 مارچ کو قومی اعزازات دیئے جاتے ہیں۔ رسمی طور پر ایک سال پہلے ان اعزازات کا اعلان کیا جاتا ہے اور یہ اعزازات صدر مملکت یا ان کے نمائندے عطاکرتے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو باوثوق ذرائع نے بتایا کہ کابینہ ڈویژن کے سامنے ابھی تک یہ معاملہ پیش ہی نہیں ہوا کہ نعیم رشید شہید کو پاکستان کا کون سا اعزاز عطا کیا جائے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ اتوا ر کو وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی سے متاثر ہونے والے پاکستانی خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عیسائی دہشت گرد کو پکڑنے کی کوشش کرنے کے دوران جام شہادت نوش کرنے والے پاکستانی شہری نعیم رشید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو میاں نعیم رشید پر فخرہے۔ نعیم رشید نے دہشت گردی سے نمٹنے اور سفید فام دہشت گرد کو پکڑنے کی کوشش کی۔ بہادری دکھانے پر نعیم رشید شہیدکو قومی اعزاز سے نوازا جائے گا۔ لیکن یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ انہیں کون سا اعزاز دیا جائے گا۔ پاکستان میں بہادری کا سب سے بڑا اعزاز نشان شجاعت ہے۔ اس کے بعد ہلال شجاعت ہے۔ پھر ستارہ شجاعت اور سب سے آخر میں تمغہ شجاعت ہے۔ یاد رہے کہ نشان شجاعت ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس پشاور ملک سعد خان شہید کو دیا گیا تھا، جو جنوری 2007ء میں محرم کے ایک جلوس کی حفاظت کرتے ہوئے
دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوئے تھے۔ دوسرا نشان شجاعت ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس صفوت غیور کو دیا گیا تھا۔ جو ٹی ٹی پی کے ایک دہشت گردانہ حملے میں شہید ہوئے۔
شہید نعیم کی کزن اور خیبر پختون اسمبلی کی رکن آمنہ سردار نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ شہید نعیم رشید کو جرات اور بہادری کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز نشان شجاعت عطا کیا جائے۔ اگرچہ انہوں نے بہادری اور شجاعت کا وہ مظاہرہ کیا ہے، جس پر وہ نشان حیدر کے مستحق ہیں۔ کیونکہ ان کی اس بہادری نے مسلم امہ کا اصل چہرہ اجاگر کیا ہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے رکن اسمبلی آمنہ سردار نے کہا کہ ’’وزیر اعظم کا اعلان صرف ٹوئٹر پر نظر آیا ہے۔ لیکن شہید کو کون سا اعزاز دیا جائے گا، اس بارے میں نہیں بتایا گیا۔ ہمارے خاندان کا مطالبہ ہے کہ نعیم رشید نے نہ صرف پاکستان، بلکہ عالم اسلام کے وقار کے لیے اپنی جان قربان کی ہے۔ اس لیے انہیں پاکستان میں جرات اور شجاعت کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا جائے‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر 23 مارچ کو ہی نعیم رشید شہید کو اعزاز دیا جاتا ہے تو ملک میں ان کے دو بھائی موجود ہیں، جو ایوارڈ وصول کرسکتے ہیں۔ کیونکہ شہید کی والدہ، نعیم کے بھائی ڈاکٹر خورشید عالم کے ساتھ نیوزی لینڈ تدفین میں شرکت کے لئے گئی ہیں۔ شہید کی بیوہ نیوزی لینڈ میں موجود ہیں۔ اگر 23 مارچ کے بعد یہ اعزاز دیا جاتا ہے تو شہید کی والدہ یہ اعزاز وصول کر سکتی ہیں‘‘۔
دوسری جانب سانحہ کرائسٹ چرچ کے شہید نعیم رشید کی بیوہ امبرین نعیم بھی عزم و ہمت کی مثال بن گئیں۔ میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شوہر اور بیٹے کی شہادت نے انہیں مزید مضبوط بنا دیا ہے۔ ان کا ایمان اور زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔ امبرین نعیم کا کہنا تھا کہ ’’مجھے حملہ آور پر ترس آتا ہے کہ اس کے دل میں پیارکی جگہ نفرت تھی، اور وہ ہماری طرح اطمینان اور سکون محسوس نہیں کرسکتا تھا۔ میں یقینی طور پر اپنے شوہر اور بیٹے کا آخری دیدار کرنا چاہتی ہوں۔ امبرین نعیم کے اس انٹرویو کو وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیا ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود پاکستان سے کسی وزیر یا اعلیٰ عہدیدار کو شہدا کی تدفین میں شرکت کے لئے نیوزی لینڈ بھیجنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ جبکہ نعیم رشید کی والدہ اور بھائی ان کی تدفین میں شرکت کے لئے نیوزی لینڈ میں موجود ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستانی ہیرو نعیم نعیم رشید نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی اور وہ نیوزی لینڈ میں پروفیسر تھے۔ جمعہ کے روز وہ کرائسٹ چرچ کی مسجد النور میں نماز جمعہ ادا کرنے گئے، جہاں ان کے بیٹے بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مسجد میں ایک عیسائی دہشت گرد ٹارنٹ نے فائرنگ شروع کر دی۔ نعیم رشید شہید نے دہشت گرد کو روکنے کی کوشش کی اور کئی گولیاں لگنے کے بعد بھی دہشت گرد سے لڑتے رہے اور پھر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post