ندیم بلوچ
اس بار پاکستان فٹبال انڈسٹری کو پروان چڑھانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، جس کی تیاری بھی کی جارہی ہے۔ آئندہ دو برس کے فریم آئوٹ پروجیکٹ میں فٹبال کو کرکٹ کے مقابلے میں لانے کیلئے سرکاری اور نجی سطح پر بھاری سرمایہ کاری کی جائے گی۔ جس کا بنیادی مقصد ملک میں غیر ملکی پلیئرز پر مشتمل عالمی میعار کی لیگ کا انعقاد اور قطر ورلڈکپ میں پاکستان کی شمولیت یقینی بنانا ہے۔ امریکہ کے بلاک بلاسٹر پاپ اسٹار ایکون اور دنیا کے نامور سپر اسٹار فٹبالرز کی پاکستان میں آمد اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دوسری جانب لیاری اور بلوچستان ٹیلنٹ ہنٹ کا مرکز ہوگا۔ ادھر ایک غیر سرکاری سروے سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں فٹبال کی مقبولیت بدستور کرکٹ سے زیادہ ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق دنیا کی سب سے مہنگی اسپورٹس انڈسٹری فٹبال کو پاکستان میں فعال کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ملک میں فٹبال کے فروغ کیلئے 8 رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ جس پر سینیٹ سیکرٹریٹ نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔ کمیٹی کے کنونیر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی خود ہوں گے۔ جبکہ دیگر ارکان میں قائد ایوان شبلی فراز، سینیٹر محمد علی سیف، سینیٹر دلاور خان، سینیٹر احمد خان، اسد اشرف، مرزا آفریدی اور پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر انجیننئر سید اشفاق حسین شاہ شامل ہیں۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے صدر سید اشفاق حسین شاہ کا کہنا ہے کہ کمیٹی کے قیام سے ملک میں گراس روٹ لیول پر فٹ بال کے کھیل کو فروغ ملے گا۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن گراس روٹ سطح پر انٹر کلب چیمپئن شپ منعقد کرانے جارہی ہے، جس کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔ اس چیمپئن شپ میں ملک بھر سے 3 ہزار کے قریب کلب حصہ لیں گے۔ انٹر کلب چیمپئن شپ کی حتمی تاریخ کا اعلان 26 مارچ کو اسلام آباد میں پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے اجلاس میں کیا جائے گا۔ جبکہ پاکستان فٹبال فیڈریشن کا ایک دستہ تین اپریل میں فیفا حکام سے ملاقات کیلئے زیورخ بھی جائے گا۔ جس میں فیفا کو پاکستان فیڈریشن کے موجودہ سسٹم اور ملک میں فٹبال کیلئے تیار کئے گئے نئے انفرااسٹرکچرز سے آگاہ کیا جائے گا۔ فیفا حکام کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے بھی آگاہ کیا جائیگا۔ یوں قطر میں شیڈول ورلڈکپ 2022 میں ممکنہ 45 ٹمیوں کی شمولیت کے خبر سامنے آنے کے بعد پاکستان بھی پہلی بار میگا ایونٹ کھیلنے کی پوزیشن پر آسکتا ہے۔ اس ایونٹ میں شمولیت کیلئے میکنزم کے حوالے سے جلد پاکستان فٹبال فیڈریشن کے حکام فیفا ہیڈ کوارٹر میں درخواست پیش کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری سطح پر ملک میں فٹبال انڈسڑی کو بوسٹ اپ کرنے کیلئے ابتدائی طور پر ڈیڑھ ارب روپے کا بجٹ رکھا گیا ہے۔ جس کی منظوری اسی صورت کی جائے گی جب فیڈریشن کے حکام فٹبال کھل کی ترقی کیلئے روڈ میپ سے حکومتی نمائندوں کو آگاہ کریں گے۔ جبکہ فیفا سے بھی مالی امداد کی درخواست کی جائے گی۔ اس پروجیکٹ کو حتمی شکل دینے کیلئے چین اور خلیجی ریاستوں کے بھی فٹبال حکام پاکستان کی معاونت کریں گے۔ اس ضمن میں سب سے پہلا ٹیسٹ کیس اکتوبر میں پرکشش لیگ کے انعقاد سے ہوگا۔ ابتدائی طور پر پلان یہ بنایا گیا ہے کہ پشاور اور کراچی میں اکتوبر میں شیڈول پاکستان کی پہلی فٹبال سپر لیگ میں ایشیائی ٹیموں کے کھلاڑیوں کو بھاری معاوضے پر پاکستان لایا جائیگا اور ان کھلاڑیوں کا پروٹوکول بھی پی ایس ایل طرز کا ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق اس مجوزہ فٹبال لیگ کے اسپانسرز کیلئے لثزرز گروپ اور ٹچ اسکائی جیسے نامور فٹبال پروموٹننگ کمپنیوں سے رابط کیا جارہا ہے۔ اسی سلسے میں ٹچ ہائی کمپنی نے پاکستان نے غیر ملکی ہائی پروفائل ورلڈ سوکر اسٹارز (world soccer stars) کے انعقاد کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ جس کی تشہیر عالمی سطح پر کی جارہی ہے۔رپورٹ کے مطابق اس ملٹی ملین ڈالرز ایونٹ کی میزبانی کراچی اور لاہور کریں گے۔ یہ ایونٹ اپریل میں شیڈول ہے۔ ورلڈ سوکر اسٹارز کے منتظمین پہلے ہی برازیل کے سپر جائنٹ فٹبالر ریکارڈو کاکا، نیکولس انلکا، لیوئس فیگو جیسے نامور کھلاڑیوں کو پاکستان لا چکے ہیں۔ جس کا مقصد پاکستان میں فٹبال کو عالمی توجہ دلانا ہے۔ جبکہ گزشتہ ہفتوں لیونل میسی کے استاد کارلوس پیول بھی پاکستان آچکے ہیں۔ ٹچ اسکائی گروپ کا مقصد پاکستان میں انٹرنیشنل فٹبال کو فروخ دینے کے علاوہ یہاں موجود ٹیلنٹ کو نکھارنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ورلڈ سوکر اسٹارز کا فٹسل پہلا میچ 27 اپریل کو کراچی کے عبدالستار ایدھی ہاکی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ دوسرا میچ لاہور میں 28 اپریل کو شیڈول ہے۔ اس ایونٹ میں نامور عالمی کھلاڑیوں کے علاوہ پاکستان میں پہلی بار ہر دل عزیز امریکی پاپ اسٹار ایکون جلوہ گر ہوں گے۔ انہیں پاکستان میں فٹبال کے برانڈ امبیسیڈر کے طور پر بھی پیش کیا جائے گا۔ اس سے قبل لثزرز گروپ عالمی معیار کا ایونٹ کراچی میں کرچکی ہے۔ جس میں رونالڈینو جیسے نامور فٹبالر بھی شریک ہوئے تھے۔ یہ گروپ مقامی سطح تواتر سے ایونٹ منعقد کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں فٹبال کھیل کرکٹ سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ تاہم پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اس کھیل کو فوکس نہیں کیا جاتا۔ صرف بلوچستان میں ہی ایک ہزار سے زائد فٹبال کلبز موجود ہیں۔ جس میں کھلاڑیوں کی عمر کی حد 14 برس سے 25 تک بتائی جارہی ہے۔ لیکن پاکستان میں فٹبال کا مستقبل نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑی اپنا پیشہ ترک کرنے میں مجبور ہیں۔ اسی طرح کراچی بھی فٹبال کا مرکزی شہر تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی کرکٹ اکیڈمی سے زیادہ فٹبال کلبز موجود ہیں۔ جبکہ لیاری کو برازیل طرز کا ٹیلنٹ پیدا کرنے والا اسپاٹ قرار دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لیاری کا ٹیلنٹ سامنے لانے کیلئے تواتر کے ساتھ لیگز کرائی جارہی ہیں۔ جبکہ حال ہی میں لیاری سپر لیگ بھی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب لیاری شابک لائن کے رہائشی 58 سالہ مقبول احمد جمعہ کا شمار بھی ایسے ہی باصلاحیت فٹ بالرز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور خلیجی ریاستوں میں 25سال تک کوچنگ کے فرائض انجام دینے کے بعد اب پاکستان میں فٹبال کی پروفیشنل کوچنگ کر رہے ہیں۔ مقبول احمد پاکستان کے واحدکوچ ہیں جنہیں پروفیشنل لیگز کی کوچنگ کا اعزاز حاصل ہے۔ مقبول احمد نے 1974ء سے کلب کی سطح پر فٹ بال کھیلنے کا آغاز کیا۔ مقبول احمد کا کہنا تھا کہ وہ 6 ماہ میں قومی سطح کی ٹیم تیار کرسکتے ہیں اور سالانہ 500 کھلاڑیوں کو میدان میں لا سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان سے 100 میں سے 2 خوش نصیب کھلاڑی خلیجی ریاستوں میں جاکر پروفیشنل فٹبال کھیل رہے ہیں۔ اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ خلیجی ریاستوں، افریقی ممالک کے کھلاڑی یورپی کلب اور ٹیموں سے کھیل رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فٹ بال کھیلنے کے لئے زیادہ سازوسامان کی ضرورت نہیں۔ ایک فٹبال سے درجنوں کھلاڑی اور کئی ٹیمیں مستفید ہوسکتی ہیں۔ لیاری کے علاقے اور اطراف میں میدان اور خالی اراضیاں کافی تھیں۔ سڑکیں اور گلیاں بھی کشادہ تھیں۔ جہاں چھوٹی عمر سے ہی فٹبال کا کھیل شروع ہوجاتا تھا۔ لیاری میں تعلیم کا رجحان شروع سے کم رہا ہے۔ تاہم یہ کمی فٹبال کے کھیل میں کہیں آڑے نہیں آتی تھی۔ لیاری کے نوجوان محنت کش گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی جسمانی فٹنس اور اسٹیمنا بھی بہتر ہوتا تھا۔ اسی لیے فٹبال ان کے لیے ایک آئیڈیل کھیل ثابت ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں فیفا لیول کے متعدد کوچز موجود ہیں۔ تاہم پاکستان میں کوچنگ کا معاوضہ زیادہ سے زیادہ 70 سے 80 ہزار روپے ماہانہ ملتا ہے۔ اس کے برعکس خلیجی ریاستوں میں 7 سے 8 لاکھ روپے ماہوار، جبکہ ہر میچ کے لیے الگ سے 20 ہزار سے 50 ہزار روپے ملتے ہیں۔ ٹورنامنٹ میں ٹیم کی اچھی کارکردگی پر کوچز کو بھی خطیر انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ مقبول احمد کے مطابق دراصل فٹ بال کا کھیل دماغ اور پیروں کے درمیان بہترین تال میل کا نام ہے۔ ایسا تب ہی ہوگا جب کھلاڑی فکر معاش اور گھریلو پریشانیوں سے آزاد ہوگا۔ فٹبال کا کھیل اور تکنیک اب تبدیل ہوچکی ہے۔ تاہم پاکستان بالخصوص فٹ بال کی صلاحیتوں سے مالا مال لیاری کے نوجوان اس تکنیک سے لاعلم اور برسوں پرانے انداز میں فٹ بال کھیل رہے ہیں۔ لیکن ان کے جوش اور شوق کو جدید تکنیک سے ہم آہنگ کرکے بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں فٹ بال کا ٹیلنٹ اقربا پروری کی نظر ہو رہا ہے۔ فیصلہ ساز شخصیات اصل ٹیلنٹ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ فٹبال کے کھلاڑی غیر تراشیدہ پتھر ہیں۔ جن کو تربیت اور اچھا ماحول فراہم کر کے ہیروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post