معارف و مسائل
اب (مال فئی کے) مستحقین اور مصارف کل پانچ رہ گئے: رسولؐ، ذوی القربیٰ، یتیم، مسکین اور مسافر۔ یہی پانچ مصارف مال غنیمت کے خمس کے ہیں۔ جس کا بیان سورئہ انفال میں آیا ہے اور یہی مصارف مال فئی کے ہیں اور دونوں کا حکم یہ ہے کہ یہ سب اموال درحقیقت رسول اقدسؐ اور آپؐ کے بعد آپؐ کے خلفاء کے مکمل اختیار میں ہوتے ہیں، وہ چاہیں تو ان سب اموال کو عام مسلمانوں کے مفاد کے لئے روک لیں اور بیت المال میں جمع کردیں، کسی کو کچھ نہ دیں اور چاہیں تقسیم کردیں، البتہ تقسیم کئے جائیں تو ان پانچ اقسام میں دائر رہیں۔ (قرطبی)
خلفائے راشدینؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کے تعامل سے ثابت ہوا کہ نبی کریمؐ کے زمانے میں تو مال فئی آپؐ کے اختیار میں تھا، آپؐ کی صوابدید کے مطابق صرف کیا جاتا تھا، آپؐ کے بعد خلفاء کے اختیار اور صوابدید پر رہا۔
پھر رسول اقدسؐ کا جو حصہ اس مال میں رکھا گیا تھا، وہ آپؐ کی وفات کے بعد ختم ہوگیا۔ ذوی القربیٰ کو اس مال میں سے دینے کی دو وجہ تھیں، ایک نصرت رسولؐ، یعنی اسلامی کاموں میں رسول کریمؐ کی مدد کرنا، اس لحاظ سے اغنیاء ذوی القربیٰ کو بھی اس میں سے حصہ دیا جاتا تھا۔
دوسرے یہ کہ رسول کریمؐ کے ذوی القربیٰ پر مال صدقہ حرام ہے تو ان کے فقراء و مساکین کو صدقہ کے بدلے مال فئی سے حصہ دیا جاتا تھا، رسول اقدسؐ کی وفات کے بعد نصرت و امداد کا سلسلہ ختم ہوگیا، تو یہ وجہ باقی نہ رہی۔ اس لئے اغنیاء ذوی القربیٰ کا حصہ بھی ختم ہوگیا۔ البتہ فقراء ذوی القربیٰ کا حصہ بحیثیت فقر و احتیاج کے اس مال میں باقی رہا اور وہ اس مال میں دوسرے فقراء و مساکین کے مقابلے میں مقدم رکھے جاویں گے۔ (کذا فی الہدایۃ) اس کی پوری تفصیل سورئہ انفال میں آچکی ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post