شیر شاہ سوری کا اقبال جوں جوں بڑھ رہا تھا، بابر کا بیٹا شہنشاہ ہمایوںنکبت و مصائب کا شکار ہو رہا تھا۔ انہی دنوں مرزا ہندال اس کے بھائی نے خود باد شاہ بننے کا ارادہ کیا۔ ہمایوں نے شیخ بہلول ایک بزرگ کو مرزا کے پاس بھیجا کہ اس کو سمجھا کر اس فساد سے باز رکھے اور سمجھائے کہ اس وقت ہمیں اپنی متفقہ طاقت سے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے نہ کہ گھر ہی پھوٹ ڈال دیں۔
مرزا کے پاس خوشامدیوں کا جمگھٹا تھا، کوئی قلمدان وزارت کے خواب دیکھ رہا تھا، کسی کو جاگیر کی تو قع تھی، کوئی سپہ سالاری کا خواستگار تھا۔ ان کے کہنے سے مرزا نے شیخ کو قتل کرا دیا اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا۔
مرزا کی ماں اغاچہ بیگم کو خبر ہوئی، بیٹے کی خود سری پر بہت افسوس کیا۔ بیٹا جب بادشاہ بن کر دعائے خیر اور مبارکباد لینے کے لیے ماں کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ ماتمی لباس پہنے بیٹھی ہے۔ مرزا نے کہا اس خوشی میں یہ ماتمی لباس کیوں پہنا ہے؟
ماں نے کہا فتنہ سازوں اور ناعاقبت اندیشوں کی جماعت نے تجھ کو راہ صواب سے گمراہ کر کے ہلاکت و لعنت کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ اس لیے تیرے ماتم میں، میں نے پہلے ہی ماتمی لباس پہن لیا ہے، چنانچہ آخر وہی ہوا جو دانش مند ماں نے کہا تھا۔
مصائب قبول، مگر بادشاہ کو سجدہ نہ کیا
مولانا شیخ حسین اجمیری بقول بعض حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی اولاد سے تھے اور ان کی درگاہ کے متولی اور شاہانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ دشمنوں نے بادشاہ تک رپورٹ پہنچائی کہ حضرت خواجگان کی کوئی اولاد نہ تھی، یہ بغیر استحقاق کے کس طرح متولی بن گئے، کچھ اور بھی حاشیے چڑھائے۔ بادشاہ نے ان کو مکہ کی طرف بھجوا دیا۔ جب وہ جج کرکے واپس آئے تو یہاں کے دربار کا آئین اکبر کے دین الٰہی کے اجرا کے باعث بالکل بدل چکا تھا۔ چنانچہ شیخ وہ شرائط آداب جو ایجاد ہوتی تھیں اور جن کو وہ اسلام کے خلاف سمجھتے تھے، بجا نہ لائے۔ بادشاہ نے ناراض ہو کر قید کردیا۔
چند سال کے بعد بعض سفارشوں سے بعض دوسرے قیدیوں کے ساتھ ان کو بھی رہائی ملی۔ سب قیدی بادشاہ کے روبرو آئے اور سجدہ بجالا کر رخصت ہوتے رہے، مگر شیخ نے بوضع قدیم تعظیم وتسلیم کی اور سجدہ نہ کیا۔ باد شاہ نے ناراض ہوکر بھکر میں چوکی پہرہ کے ساتھ بھجوا دیا اور معمولی معاش مقرر کردی۔ (تاریخ ہند)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post