عبدالملک بن مروان نے سیدنا محمد بن حنفیہؒ کی طرف خط لکھا، جس میں تحریر تھا:
’’آپ میرے ملک میں تشریف لائیں اور میرے ساتھ رہیں، جیسے کہ آپ کو معلوم ہے کہ میرے ابن زبیرؓ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ مسلمانوں میں آپ کی عزت، شہرت اور ایک اہم مقام ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ میرے ملک میں رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں تو میری بیعت کرلیں، آپ کیلئے یہ بہتر ہوگا۔ اگر آپ بیعت کرلیں تو میں آپ کو وہ سو بحری جہاز جو سامان سے لدے ہوئے ابھی ابھی یہاں پہنچے ہیں، مع ان کے عملے کے آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا، آپ اس کے مالک ہوں گے۔
ان کے علاوہ دس لاکھ درہم بھی آپ کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے تیار ہوں، انہیں خرچ کرنے کا آپ کو مکمل اختیار ہوگا۔ آپ یہ رقم اپنی ذات، اپنی اولاد، رشتہ دار اور ساتھیوں پر خرچ کرسکیں گے۔ اگر آپ میری بیعت سے راضی نہیں ہیں تو پھر وہاں تشریف لے جائیں، جہاں میری حکومت نہ ہو۔‘‘
حضرت محمد بن حنفیہؒ نے جواباً یہ خط لکھا:
’’محمد بن علی کی جانب سے عبدالملک بن مروان کی طرف، السلام علیکم!
میں اس خدا سبحانہ و تعالیٰ کی حمد ثناء بیان کرتے ہوئے یہ خط آپ کی طرف لکھ کر بھیج رہا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔
امابعد !
شاید آپ مجھ سے ڈرے ہوئے ہیں، میرا خیال تھا کہ آپ بیعت کے سلسلے میں میرے مقصد کو جان چکے ہوں گے۔ خدا کی قسم! اگر پوری امت میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے راضی ہو جائے اور صرف ایک بستی والے مجھے اپنا خلیفہ ماننے پر راضی نہ ہوں تب بھی میں یہ خلافت قطعاً قبول نہ کروں اور اس بات پر ان سے کبھی لڑائی نہ کروں۔
میں مکہ معظمہ میں رہنے لگا، حضرت ابن زبیرؓ نے چاہا کہ میں ان کی بیعت کرلوں، جب میں نے انکار کر لیا تو انہوں نے میرا فیصلہ نامنظور کردیا اور میرے لیے مشکلات پیدا ہوگئیں، پھر آپ نے مجھے اپنے ملک شام میں رہائش اختیار کرنے کے لیے دعوت دی، میں آپ کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے یہاں چلا آیا اور آپ کے ملک میں رہنے لگا۔ اب آپ نے یہ پیغام بھیج دیا ہے، میں اپنے ساتھیوں کو لے کر یہاں سے بھی چلا جائوں گا، آپ گھبرایئے نہیں۔‘‘
ساتھیوں سے خطاب:
حضرت محمد بن حنفیہ ؒ اپنے گھر والوں اور اپنے مخلص ساتھیوں کو لے کر سرزمین شام سے واپس لوٹے، جس جگہ بھی آپ ٹھہرتے آپ کو وہاں سے آگے جانے کا حکم دیا جاتا اور آپ سفر کی تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کرتے رہے۔ اس سے بڑھ کر آپ کو ایک اور آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔
ہوا یہ کہ آپ کے چند ساتھیوں نے اپنی غفلت، سستی اور کاہلی کی بنا پر حضرت محمد بن حنفیہؒ پر اعتراض کیا کہ: رسول اقدسؐ نے حضرت علیؓ اور ان کی اولاد کو علم و حکمت سکھائی تھی اور خاص طور پر اہل بیت کو علم و حکمت کی دولت سے مالا مال کردیا تھا، اتنی بڑی سعادت کسی اور کے حصے میں نہیں آئی… اور ہمارے رہنما حضرت محمد بن حنفیہؒ بھی اہل بیت میں سے ہیں، لیکن ان مشکلات اور پریشانیوں میں ان کی حکمت عملی کسی کام نہیں آرہی۔
حضرت محمد بن حنفیہؒ نے خدا کی دی ہوئی صلاحیت، سمجھ داری اور قابل رشک ذہانت کی بنا پر اس خطرے کو محسوس کرلیا کہ یہ لوگ اب مشکلات سے گھبرا کر اب آپ کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔ آپ نے سب لوگوں کو جمع کیا اور آپ ان سے خطاب کرنے کیلئے کھڑے ہوئے۔ خدا تعالیٰ کی حمد و ثناء اور رسول اقدسؐ پر درود و سلام کے بعد ارشاد فرمایا:
لوگوں کا خیال ہے کہ اہل بیت کو رسول اقدسؐ نے کسی ایسے خصوصی علم سے نوازا ہے جو اور کسی کو عطا نہیں کیا۔
خدا کی قسم! ہم رسول اکرمؐ کی طرف سے اس علم کے وارث ہیں جو قرآن مجید میں محفوظ ہے، جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم کتاب الٰہی کے علاوہ کچھ اور پڑھتے ہیں، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔
یہ سن کر لوگ مطمئن ہوگئے اور اپنی کاہلی اور سستی کو چھوڑ کر چست چاق و چوبند ہوکر آپؒ سے محبت کرنے لگے۔آپ کے بعض ساتھی آپ کو محبت سے یوں سلام کرتے: السلام علیک یا مہدی۔
آپؒ فرماتے: ’’میں خیرو بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا ہوں اور آپ تمام بھی خیرو بھلائی کی طرف راہ نمائی کرنے والے ہیں۔ جب کوئی مجھے سلام کہے تو وہ میرا نام لیا کرے اور یوں کہے السلام علیک یا محمد بن علی۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post