دیانگر کی شہزادی:
قبول اسلام کی یہ عجیب اور ایمان افروز داستان حکیم خواجہ شوکت علی گیلانی نے قلم بند کی ہے اور یہ مضمون ماہنامہ ضیائے حرم لاہور کے شمارہ دسمبر 1986ء میں شائع ہوا۔
دیانگر کے مہاراجہ ان چند والیان ریاست میں سے تھے، جو وضع داری اور مغربی تعلیم کے بظاہر متضاد اوصاف کا مرکز تھے، ان کے مذہب کو علوم جدید کی روشنی نے کوئی صدمہ نہیں پہنچایا تھا، لہٰذا ان کے لیے نہایت آسان تھا کہ شیلے اور کیٹس کی نظموں کا مطالعہ کرنے کے بعد مندر میں جا کر بت پرستی کریں۔
وہ ویدانت کے عمیق فلسفے کو اوہام پرستی کے منافی خیال نہیں کرتے تھے اور سپنسر اور براٹس کے مقالات پڑھ کر بھی چاترک کے حامی تھے۔ ان کی اکلوتی بیٹی سندر کماری تھی، جو اپنے نام کی تفسیر تھی۔ حسن صورت کے ساتھ حسنِ سیرت بھی شامل تھا۔ یہ مجسمہ حسن ایک باہوش راجکمار کے قلب کی تسکین کا سامان ہوئی اور شادی کی زنجیر کی بدولت اس سے وابستہ ہو گئی۔ شہزادہ بھی قسمت سے ویسا ہی ملا جیسا ملنا چاہئے تھا۔ حسین، شریف، سمجھ دار، نیک اور مخلص، اس کا دل محبت سے لبریز تھا اور سندر کماری کے دل کے جذبات کو بھی سمجھتا تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے کی بدولت جنت حاصل تھی اور ان کی چھوٹی سی دنیا میں کسی چیز کی کمی نہ تھیِ۔
مگر یہ کب ہوا ہے کہ دو دلوں کو راحت نصیب ہوئی ہو اور تفرقہ پرواز فلک چین سے بیٹھا ہو؟ راجکمار اور سندر کماری اسی دنیا کے فانی انسان تھے۔ یہ بھی ان قوانین ابدی کے ماتحت تھے، جن سے کسی کو چارہ نہیں۔ غرض سندر کماری کو راجکمار کی فرقت کا صدمہ سہنا پڑا اور قدرت نے اس کے محبوب شوہر کو اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا کر دیا۔
سولہ برس کے سن میں ایک پیکر حسن و جمال کی بیوگی اور پھر ہندو قانون کے مطابق اس کا مدت العمر ایک زہرہ گداز سانحہ کے رنج و الم کے لیے وقف ہو جانا۔ اب حالت یہ ہے کہ سندر کماری کو دنیا کی کسی چیز سے رغبت نہیں ہے۔ وہ زیب و زینت جو نسوانی حسن کا تتمہ ہے، اس کے جسم سے نا آشنا ہے۔ وہ راحتیں جو جوانی کے لیے پیدا ہوتی ہیں، وہ اس سے کو سوں دور ہیں۔ اس کے دل کی روشنی تاریکی سے تبدیل ہوگئی اور اب تمام دنیا اس کی نظر میں اندھیر ہے۔ وہ اکثر کہتی ہے اور سچ کہتی ہے کہ کاش میں مر جاتی! مگر موت کی آرزو کا پورا ہونا آسان نہیں۔ آرزو جس چیز کی بھی ہو، مدعا کے حصول کو دشوار بنا دیتی ہے۔
وہ غم جو گلا گھونٹتا ہے اور دل میں دھواں پیدا کرتا ہے، اکثر انسان کو دنیا کی طرف سے مایوس کر کے ان ابدی حقیقتوں کی طرف متوجہ کر دیتا ہے، جن کو ہم روحانیت یا مذہب کہتے ہیں۔ روح دنیا کی مسرتوں سے بیزار ہو کر ان مسرتوں کے اکتساب کی تلاش میں گم ہو جاتی ہے، جن کو فنا نہیں۔
سندر کماری نے بھی دنیا کے طرف سے بیزار ہو کر مذہب کی طرف رجوع کیا اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر بنارس روانہ ہو گئی۔ اس کے ضعیف باپ نے ہر چند کوشش کی کہ اسے کچھ دولت دے دے کہ وقت پر کام آئے یا کچھ اور ایسا بندوبست کر دے کہ اسے تکلیف نہ ہو، لیکن اس نے قبول نہ کیا اور کہا کہ میں دھرم کے لیے باہر نکلی ہوں، بھگتی میں مایا کا کیا کام؟
راجہ صاحب کو مجبور ہونا پڑا، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ ان کی بیٹی کا ارادہ کس قدر مضبوط ہے۔ اس کے علاوہ اس کے مذہبی ارادوں میں خلل ڈال کر اپنی عاقبت خراب کرنا نہیں چاہتے تھے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post