آگے اس شبہ کا جواب ہے کہ اس وحی لانے والے کا فرشتہ اور جبریل ہونا اس وقت معلوم ہوسکتا ہے، جب آپؐ ان کو پہچانتے ہوں اور پوری صحیح پہچان موقوف ہے اصل صورت میں دیکھنے پر تو کیا آپؐ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اپنی اصلی صورت پر دیکھا ہے، اس کی نسبت فرماتے ہیں کہ ہاں یہ بھی ہوا ہے، جس کی کیفیت یہ ہے کہ چند بار تو دوسری صورت میں دیکھا) پھر (ایک بار ایسا بھی ہوا کہ) وہ فرشتہ (اپنی) اصلی صورت پر (آپؐ کے روبرو) نمودار ہوا، ایسی حالت میں کہ وہ (آسمان کے) بلند کنارے پر تھا (ایک روایت میں افق شرقی سے اس کی تفسیر آئی ہے، کما فی الدر المنثور اور افق میں دکھلا دینے کی غالباً یہ حکمت ہے کہ وسط سماء میں دیکھنا خالی از مشقت و تکلف نہیں اور اعلیٰ میں غالباً یہ حکمت تھی کہ بالکل نیچے افق پر بھی پوری چیز نظر نہیں آتی، اس لئے ذرا اونچے پر نظر آئے اور اس دیکھنے کا قصہ یہ ہوا تھا کہ ایک بار حضور اقدسؐ نے جبرئیل (علیہ السلام) سے خواہش کی کہ مجھ کو اپنی اصلی صورت دکھلا دو، انہوں نے حرا کے پاس حسب روایت ترمذی محلہ جیاد میں وعدہ ٹھہرایا، آپؐ وہاں تشریف لے گئے تو ان کو افق مشرق میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو ہیں اور اس قدر پھیلے ہوئے ہیں کہ افق غربی تک گھیر رکھا ہے، آپ بے ہوش ہو کر گر پڑے، اس وقت جبرئیل (علیہ السلام) بصورت بشر ہو کر آپ کے پاس تسکین کے لئے اتر آئے، جس کا آگے ذکر ہے کذا فی الجلالین، حاصل یہ کہ وہ فرشتہ اول صورت اصلیہ میں افق اعلیٰ پر نمو دار ہوا) پھر (جب آپؐ بے ہوش ہوگئے تو) وہ فرشتہ ( آپؐ کے) نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا، سو (قرب کی وجہ سے) دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا، بلکہ (غایت قرب کی وجہ سے ) اور بھی کم (فاصلہ رہ گیا، مطلب دو کمانوں کا یہ ہے کہ عرب کی عادت تھی کہ جب دو شخص باہم غایت درجہ کا اتفاق و اتحاد کرنا چاہتے تھے تو دونوں اپنی اپنی کمانیں لے کر ان کے چلے یعنی تانت کو باہم متصل کر دیتے اور اس صفت میں بھی بعض اجزاء کے اعتبار سے کچھ فصل ضروری رہتا ہے، پس اس محاورہ کی وجہ سے یہ کنایہ ہوگیا قرب و اتحاد سے اور چونکہ یہ محض اتفاق صوری کی علامت تھی تو اگر روحانی و قلبی اتفاق بھی ہو تو وہاں اَوْ اَدْنیٰ بھی صادق آ سکتا ہے، پس اَوْ اَدْنیٰ کے بڑھا دینے میں اشارہ ہوگیا کہ مجاورت صوریہ کے علاوہ آپؐ میں اور جبرئیل (علیہ السلام) میں روحانی مناسبت بھی تھی، جو مدار اعظم ہے معرفت تامہ اور حفظ صورت کا، غرض یہ کہ ان کی تسکین سے آپؐ کو تسکین ہوئی اور افاقہ ہوا)(جاری ہے)