سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں: ہم نے سیدنا فاروق اعظمؓ کے ساتھ مل کر حج کیا۔ فاروق اعظمؓ جب حجر اسود کے قریب پہنچے تو اسے بوسہ دیا اور اسے مخاطب کرکے کہنے لگے: ’’میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے جو نہ نقصان کرسکتا ہے نہ فائدہ دے سکتا ہے، اگر میں نبی کریمؐ کو تمہیں بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو تمہیں کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘
سیدنا حکیم بن حزامؓ جلیل القدر صحابی رسول ہیں۔ خدا نے مال و دولت بھی بہت عطا کر رکھا تھا۔ آپؓ حج کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک سو اونٹ ہیں، جنہیں یوم النحر کو قربان کیا جائے گا۔ ان کے ساتھ ایک سو غلام ہیں۔ جب میدان عرفات میں پہنچتے ہیں تو سو کے سو غلاموں کو خدا کی رضا کے لیے آزاد کر دیتے ہیں۔ پھر اپنے رب سے ایک دعا مانگتے ہیں:
’’الٰہی! میں نے ان غلاموں کو تیری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے آزاد کیا۔ ہم بھی تیرے غلام ہیں۔ ہمیں بھی اسی طرح جہنم کی آگ سے اور اپنے عذابوں سے آزادی نصیب فرما دے۔‘‘
میدان عرفات میں موجود حجاج کرام یہ منظر دیکھ کر اور حکیمؓ کی دعا سن کو زار و قطار رونے لگ جاتے ہیں۔ وہ بھی دعائیں کر رہے ہیں کہ ان کے پاس غلام تو نہیں، مگر جہنم سے آزادی کے وہ سب بھی طلب گار ہیں۔
سیدنا ابن عمرؓ حج کر رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص لاغر بڑھیا کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے طواف کر رہا تھا۔ ابن عمرؓ نے پوچھا: اے نوجوان یہ تمہاری پیٹھ پر سواری کرنے والی خاتون کون ہے؟ کہنے لگا: یہ میری والدہ ہے۔ یہ بتائیے کیا میں نے اپنی امی کا حق ادا کر دیا ہے؟ سیدنا ابن عمرؓ نے فرمایا: خدا کی قسم! تم جتنی محنت اور کوشش بھی کرلو، ابھی تک تو اس درد کی پہلی لہر کا حق بھی ادا نہیں ہوا، جو اس نے تمہاری ولادت کے وقت برداشت کیا تھا۔
ما ں کا حق کتنا عظیم ہے!! سیدنا ابن عمرؓ کی بات کا مطلب یہ تھا کہ ابھی تو تمہاری والدہ کے وہ احسانات اس کے علاوہ ہیں، جن میں تمہیں اس نے نو ماہ تک پیٹ میں اٹھایا، پھر جنم دینے کے بعد بچپن سے لے کر جوانی تک لمحہ بہ لمحہ تمہارا ہر طرح سے خیال رکھا۔ اتنابڑا حق اتنی سی مشقت سے کیسے ادا ہو سکتا ہے۔ کیا ہم سب اپنے والدین کا یہ عظیم حق ادا کررہے ہیں۔ یہ ہم سب کے سوچنے کی بات ہے۔
مطرف بن الشخیرؒ اور بکر المزنیؒ میدان عرفات میں کھڑے ہیں۔ خدا کی بارگاہ میں دست سوال دراز کیے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک نے اس طرح دعا کی: خدایا! میرے گناہوں اور کرتوتوں کی وجہ سے ان سب لوگوں کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو ناکام ونامراد واپس نہ لوٹانا۔ دوسرے نے رب تعالیٰ کی بارگاہ میں اس طرح درخواست پیش کی۔ یہ میدان کتنا عظمت والا اور شان والا ہے، اگر میرے جیسا نکما انسان اس مجمع میں نہ ہوتا تو شاید سب کی دعائیں قبول کر لی جاتیں، وہ لوگ کس قدر تواضع اور انکساری کے پیکر ہوا کرتے تھے اور بے شمار نیکیاں کرنے کے باوجود وہ کس قدر محتاط رہتے تھے۔
فضیل بن عیاضؒ میدان عرفات میں کسی گمشدہ بچے کی ماں کی طرح پر سوز آہ وبکاء کررہے تھے۔ جب سورج غروب ہونے کے قریب ہوا تو انہوںنے اپنی داڑھی پکڑ لی اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: ہائے میری بدبختی اگر مجھے معافی نہ ملی۔
مسروقؒ جب حج کے لیے جاتے تو بہت کثرت سے عبادت کرتے تھے، حتیٰ کہ ان کے بارے میں امام احمد ابن حنبلؒ نے کہا: مسروقؒ جب بھی حج کرتے ہیں تو ایام حج کی ہر رات نماز پڑھنے میں گزار دیتے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post