مسلمانوں، خاص طور پر پاکستان کے معاملے میں نہایت متعصب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ملک میں پاکستانی فوجی و افسران کی تربیت بھی بند کر دی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہت کشیدگی اور تلخی کے باوجود پاکستانی فوجیوں کی تربیت کا یہ پروگرام کبھی بند نہیں ہوا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاک امریکا فوجی تعاون کی علامت بن کر ابھرنے والا پاکستانی فوجی افسروں کی تعلیم و تربیت کا پروگرام تعلقات میں تمام تر کشیدگی کے باوجود مثبت انداز میں جاری تھا۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے خاموشی کے ساتھ اس پروگرام سے پاکستانی فوجی افسران کو نکالنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کو دی جانے والی سیکورٹی امداد روکنے کے بعد امریکا کی جانب سے یہ پہلا اقدام ہے، جو دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید متاثر کر سکتا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون اور پاکستانی عسکری حکام کی جانب سے اس پر کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، لیکن دونوں جانب سے نجی ملاقاتوں میں امریکی انتظامیہ کے تازہ اقدام پر تنقید کی جا رہی ہے۔ عالمی خبر ایجنسی ’’رائٹرز‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے بعض امریکی حکام نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس فیصلے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات کو شدید دھچکا لگے گا۔ پاکستانی حکام نے اشارہ دیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان پر دبائو ڈالنے کی اس پالیسی کے نتیجے میں پاکستانی فوجی افسروں کی تربیت کے لئے روس اور چین سے رجوع کیا جا سکتا ہے اور چند روز قبل روس سے پاکستانی فوجی افسروں کی تربیت کا جو معاہدہ ہوا تھا، پاکستان کے لئے اس پر عمل درآمد میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستانی افواج کے افسروں کو روس میں تربیت دینا طے پایا تھا۔ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ امریکی فیصلہ پاکستان کو دوسرے ممالک کا رخ کرنے پر مجبور کر دے گا۔ امریکا افغانستان سے نکلنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب تک وہاں بری طرح پھنسا ہوا ہے اور جب تک تمام امریکی فوجی اس ملک سے بے دخل نہیں ہو جاتے، امریکا پاکستان کی مدد کا محتاج رہے گا۔ افغانستان کی اندرونی صورت حال امریکی کٹھ پتلی اشرف غنی کی حکومت کے کنٹرول میں پہلے ہی نہ تھی، جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ وہاں طالبان کا اثر و نفوذ بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکا کو بعد از خرابی بسیار افغانستان میں طالبان کی قوت کا اندازہ ہو چکا ہے۔ اس بنا پر وہ ان کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی انتظامیہ نے پاکستان سے بھی کئی بار تعاون طلب کیا، لیکن طالبان امریکا اور اس کے اتحادیوں کو غاصب قرار دے کر ان کے غیر مشروط طور پر افغانستان سے چلے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دریں اثنا گھمسان کی جنگ کے بعد گزشتہ روز طالبان صوبہ غزنی کے دارالحکومت میں داخل ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس لڑائی میں ایک سو چالیس سرکاری افغان فوجیوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ ان کی پچیس چوکیوں، چھ پولیس اسٹیشنوں، انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ اور کئی فوجی مراکز پر قبضے کے بعد ان کی پیش قدمی گورنر ہائوس کی جانب جاری ہے اور گورنر کو نکالنے کے لئے آنے والا سرکاری ہیلی کاپٹر تباہ کر دیا گیا ہے۔ دفتروں میں سرکاری اہلکاروں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ اس سے افغانستان میں صورت حال کی سنگینی، کٹھ پتلی افغان حکومت کی بے بسی اور اس کے سرپرست ملک امریکا کی ’’طاقت‘‘ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکا کے جنونی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ان حالات میں پاکستان سے دوری کا جو تازہ فیصلہ کیا ہے، اسے کم سے کم لفظوں میں احمقانہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے، جس کے اثرات پاکستان سے زیادہ خود امریکا، اس کے فوجیوں اور اس کی معیشت پر پڑیں گے۔ امریکی محکمہ دفاع نے اپنے صدر کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جم میٹس کے خیال میں پاکستان اور امریکا کے درمیان فوجی تعلقات کا فروغ تعلیمی و تربیتی پروگراموں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان و افغانستان کے لئے امریکا کے سابق ایلچی ڈان فیلڈمین نے اسے امریکی انتظامیہ کی کوتاہ بینی قرار دیا ہے۔ امریکی دانشوروں اور سیاسی و دفاعی مبصرین اس اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کہیں اپنے ملک کے لئے سوویت یونین کے صدر گورباچوف ثابت نہ ہوں، جنہوں نے سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
کانگریسی ذہنیت کا شاخسانہ
لاہور کی سیشن عدالت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمن اور مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ایک درخواست پر ماڈل ٹائون تھانے کے انچارج سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج اظہر اقبال رانجھا کی عدالت میں درخواست گزار کے وکیل سلیم چوہدری نے بتایا کہ فضل الرحمن نے آٹھ اگست کو الیکشن کمیشن کے باہر اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔ انہوں نے چودہ اگست کو یوم آزادی نہ منانے اور یوم جدوجہد آزادی منانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی تقریر سے عوام کے جذبات مجروح ہوئے اور یہ بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔ دوسری جانب شہباز شریف نے بھی یوم آزادی نہ منانے کا مطالبہ کیا۔ ماڈل ٹائون تھانے میں ان دونوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی گئی، لیکن وہاں کوئی شنوائی نہ ہوئی تو درخواست گزار نے سیشن عدالت سے رجوع کیا ہے۔ مقدمے کا فیصلہ جو بھی آئے اہل وطن میاں شہباز شریف کے بیان اور طرز عمل پر حیران ہیں۔ وہ اس مسلم لیگ کے صدر ہیں، جو پاکستان بنانے کا دعویٰ کرتی ہے۔ صرف انتخابات میں شکست نے مسلم لیگ کے رہنما کا دماغ پلٹ کر یوم آزادی منانے سے انکار کا اعلان کرا دیا ہے تو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمن سے کیا شکوہ کہ وہ تو آزادی کے ستر سال گزر جانے کے بعد بھی ذہنیت کے اعتبار سے اب تک کانگریسی ہیں۔ پاکستانی سیاست میں رہ کر انہوں نے ذاتی مقاصد حاصل کئے اور خوب فائدے سمیٹے، حالیہ انتخابات میں اپنی نشست کھو دینے پر وہ اس قدر حواس باختہ ہو گئے کہ اپنے مدرسوں کے اساتذہ اور طلباء کو سڑکوں پر لا کر پاکستان کی آزادی سے بھی انکار کی جسارت کر بیٹھے۔ ایسے لوگوں کا عدالتوں کے علاوہ عوام میں بھی سخت مواخذہ ہونا چاہئے۔ پاکستان میں ان کے لئے مزید فوائد حاصل کرنے مواقع نہیں ہیں تو وہ اپنے متحدہ ہندوستان کے خواب کی تکمیل کے لئے وہیں چلے جائیں اور جمعیت العلمائے ہند کا حصہ بن جائیں۔
٭٭٭٭٭
Next Post