حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: یہ تین چیزیں جس میں ہوں اس نے ایمان کی حلاوت پا لی۔
1۔ خدا تعالیٰ اور اس کا رسولؐ اس کے نزدیک ہر چیز سے زیادہ محبوب ہو۔ 2۔ کسی سے محبت کرے توخدا کے لیے کرے۔
3۔ کفر میں لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرے جس طرح وہ نار جہنم میں پھینکے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ، کتاب الایمان، جلد اول)
دین کا ستون!
حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے کہ خدا تعالیٰ نے میری امت پر سب سے پہلے نماز فرض کی، قیامت میں سب سے پہلے نماز کا ہی حساب ہوگا، نماز کے بارے میں خدا سے ڈرو، نماز اسلام کی علامت ہے، نماز دین کا ستون ہے، نماز شیطان کا منہ کالا کرتی ہے، نماز افضل ترین جہاد ہے، سب سے زیادہ پسندیدہ عمل خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ نماز ہے، جو وقت پر پڑھی جائے۔
حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ سردی کے موسم میں باہر تشریف لائے، پتے درختوں سے گر رہے تھے۔ آپؐ نے ایک درخت کی ٹہنی ہاتھ میں لی، اس کے پتے اور بھی گرنے لگے، آپؐ نے فرمایا: اے ابو ذر! مسلمان بندہ جب اخلاص سے حق تعالیٰ کیلئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ایسے گرتے ہیں، جیسے یہ پتے درختوں سے گر رہے ہیں۔ (مشکوٰۃ شریف)
شفاعت رسولؐ سے محرومی پسند نہیں
حضرت ابن عمرؓ اسوئہ حسنہ کے بڑے پابند تھے۔ رسول اکرمؐ جس چیز کو پسند کرتے تھے، اسے یہ بھی پسند کرتے تھے اور جس چیز سے آپؐ احتراز کرتے تھے، اس سے ابن عمرؓ بھی احتراز کرتے تھے۔ آپ کی ہر نسبت کا یہ انتہائی احترام کرتے تھے۔ چونکہ رسول اکرمؐ کو مدینہ منورہ سے بہت محبت تھی، اس لیے ابن عمرؓ بھی اس کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ جب اسلامی دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ اور دمشق منتقل ہوگیا تو ان شہروں میں دولت اور ثروت جمع ہوگئی اور مدینہ کے لوگوں میں تنگ دستی اور مفلسی عام ہوگئی۔ اکثر لوگ مدینہ کو چھوڑ کر ان نئے ترقی یافتہ شہروں میں جا بسے، لیکن حضرت ابن عمرؓ نے انتہائی تنگی کے حال میں بھی وہاں سے نکلنا پسند نہ کیا۔
ایک مرتبہ ان کے ایک خادم نے تنگ حالی کی شکایت کی اور مدینہ سے جانے کی اجازت چاہی۔ آپ نے کہا:
’’تم نہیں جانتے کہ رسول اکرمؐ کو اس شہر سے کتنا پیار تھا۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے جو شخص مدینہ کے مصائب پر صبر کرے گا، قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا۔ چنانچہ دنیا کی خوش حالی کے بدلے رسول اکرمؐ کی شفاعت سے محروم ہونا مجھے پسند نہیں ہے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل، جلد 2 ص 122)
Prev Post