آخری حصہ
اسود بن یزید نخغیؒ نے اسی (80) بار حج اور عمرہ کی ادائیگی کی۔ ایک سفر میں علقمہ بن قیسؒ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اسودؒ حج کے ایام میںکثرت سے عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک سخت گرم دن میں انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ اچانک گرمی کی شدت کے باعث ان کی طبیعت بگڑ گئی اور چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ علقمہ نے ان کی ران پر زور سے ہاتھ مارا اور کہا: اسود! آخر تم کس لیے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال رہے ہو اور جسم کو عذاب دے رہے ہو؟
اسودؒ کہنے لگے: ابو شبل! میرے بھائی! میں اس جسم کے لیے اس دن کی راحت کا انتظام کررہا ہوں، جس دن کہیں کوئی سایہ نہیں ہوگا اور سورج سر پر ہوگا اور زمین تپ کر کوئلہ ہو رہی ہوگی۔ اس دن کا معاملہ بہت سخت ہے، بہت ہی سخت ہے۔
محمد بن واسعؒ حج کے سفر پر جا رہے تھے۔ وہ اونٹ پر سواری کے دوران محمل میں نماز میں مسلسل مشغول رہتے اور حدی خواں سے کہتے: تم بلند آواز سے حدی کے اشعار پڑھتے رہنا تاکہ میری قرأت کی آواز تمہاری آواز میں دب جائے۔ اس طرح کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ میں سواری پر بیٹھا نماز پڑھ رہا ہوں۔
مغیرہ بن حکیم صنعانیؒ یمن سے پیدل چل کر حج کے لیے مکہ مکرمہ کا سفر کیا کرتے تھے۔ آپ ہر رات کو دس پارے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ وہ رات کو کھڑے ہوتے اور نماز کی حالت ہی میں اپنی منزل مکمل کیا کرتے تھے۔ وہ سوچتے قرآن تو پڑھنا ہی ہے، کیوں نہ اسے نماز کی حالت میں پڑھا جائے تاکہ اجرو ثواب اور زیادہ بڑھ جائے۔
امام مالک بن انسؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ سیدنا جعفر صادقؓ کے ہمراہ حج کا سفر کیا۔ سیدنا جعفرؒ جب تلبیہ کہنے کا ارادہ کرتے تو ان پر شدید خوف و رعب طاری ہو جاتا اور ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا۔ امام مالکؒ پوچھتے: آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے ؟
وہ فرماتے: مجھے ڈر ہے کہ جب میں کہوں گا: خدایا! میں حاضر ہوں تو کہیں ادھر سے یہ آواز نہ آجائے: جعفر! تمہاری حاضری قبول نہیں۔
مجاہدؒ کہتے ہیں: میں نے ایک سال ارادہ کیا کہ مشہور جلیل القدر صحابی سیدنا ابن عمرؓ کے ساتھ حج کو جاتا ہوں تاکہ راستے میں ان کی خدمت کر سکوں۔ مگر جب میں ان کے ساتھ روانہ ہوا تو بجائے اس کے کہ میں ان کی خدمت کرتا الٹا وہ میری خدمت کرنے لگ گئے اور سارا راستہ میرا اور ان کا یہی حال رہا۔
ابن دینارؒ کہتے ہیں: میں ایک مرتبہ مکہ مکرمہ کے سفر میں سیدنا ابن عمرؓ کے ساتھ تھا۔ راستے میں آپؓ کی ایک دیہاتی شخص سے ملاقات ہوئی۔ سیدنا ابن عمرؓ کے پاس سفر کے لیے ایک اونٹ تھا اور ساتھ میں ایک گدھا بھی تھا۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ جب وہ اونٹ کی سواری سے تھک جاتے تو تھوڑی سفر میں خوشگوار تبدیلی کے لیے وہ گدھے پر سواری کیا کرتے تھے۔ اس دیہاتی نے آپؓ کو سلام کیا تو آپؓ نے جو عمامہ سر پر اوڑھ رکھا تھا، وہ بھی اسے دے دیا اور وہ گدھا بھی دے دیا، جو سواری کے لیے ساتھ رکھا ہوا تھا۔
ابن دینارؒ کہتے ہیں: میں نے کہا: خدا آپ پر مہربانی فرمائے! یہ دیہاتی لوگ تو معمولی سی چیز لے کر بھی خوش ہو جاتے ہیں، آپ نے اتنی قیمتی اشیاء اس اعرابی کو دے دیں۔ فرمانے لگے: اس عمل کی ایک خاص وجہ ہے۔ یہ شخص میرے گرامی قدر والد سیدنا عمر بن الخطابؓ کا دوست تھا۔ میںنے رسول اقدسؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
’’سب سے بڑی اور بہترین نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے دوستوں سے حسن سلوک کرے۔‘‘
Next Post