سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ کے وصال مبارک کے بعد کسی ایک جمعرات کی صبح کو ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ اونٹ پر سوار ایک سفید ریش بوڑھا آیا۔ اس نے اپنی سواری کو مسجد نبویؐ کے دروازے پر باندھا اور یہ کہتے ہوئے اندر داخل ہوا… ’’تم پر سلامتی اور خدا کی رحمت نازل ہو… کیا تم میں خدا کے رسول محمد مصطفیؐ موجود ہیں؟‘‘
حضرت علی المرتضیٰؓ نے فرمایا: ’’اے حضور اقدسؐ کے بارے پوچھنے والے! تجھے آنحضرتؐ سے کیا کام ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’میں یہودی علماء میں سے ہوں اور 80 سال سے تورات کا مطالعہ کر رہا ہوں… اس میں متعدد مقامات پر حق تعالیٰ نے اپنے نبی محمد مصطفیؐ کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے اور میں اس ذکر سے متاثر ہو کر آیا ہوں۔‘‘
اس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’اور میں آنحضرتؐ کے ہاتھ پر بیعت ِ اسلام کیلئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
حضرت علیؓ نے اسے بتایا کہ آنحضرتؐ کا تو وصال ہو چکا ہے… اس پر اس عالم نے افسوس کا اظہار شروع کر دیا اور کہا… ’’’کیا تم میں ان کی اولاد ہے؟‘‘
حضرت علیؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا کہ اسے سیدہ فاطمہؓ کے پاس لے جاؤ۔
حضرت بلالؓ اسے سیدہ کے دروازے پر لے گئے۔ وہاں جا کر اس نے اپنا تعارف کروایا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں رسول اقدسؐ کے کپڑوں میں سے کسی کپڑے کی زیارت کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت سیدہ فاطمہؓ نے اپنے شہزادے حضرت حسینؓ سے فرمایا: ’’وہ کپڑا لاؤ جو آپؐ نے بوقتِ وصال پہنا ہوا تھا۔‘‘
جب وہ کپڑا لایا گیا تو اس یہودی عالم نے اسے اپنے چہرے پر ڈال لیا۔ وہ اس کی خوشبو کو سونگھتا اور خوشبو سونگھتے ہوئے بار بار کہتا کہ اس صاحبِ ثوب (کپڑے والے) پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔
اس کے بعد حضرت علیؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: ’’حضور اقدسؐ کے اوصافِ جمیلہ کا تذکرہ اس طرح کرو کہ گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘
یہ بات سن کر حضرت علیؓ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور شدت کے ساتھ رو پڑے اور کہنے لگے: ’’اے سائل! خدا کی قسم! رسول کریمؐ کی زیارت کا جس قدر تجھے اشتیاق ہے، مجھے اس سے کہیں بڑھ کر اپنے حبیبؐ کی ملاقات کا شوق ہے۔‘‘
بعد ازاں سیدنا علی المرتضیٰؓ نے حضور نبی اکرمؐ کے حلیہ اور سراپا مبارک کا ذکر بڑی تفصیل سے فرمایا، جس کی من و عن تصدیق اس یہودی عالم نے سابقہ کتب سماوی کی روشنی میں کی اور مسلمان ہو گیا۔
(تاریخ ابن عساکر، 1 : 342، تاریخ دمشق الکبیر، 1 : 342,343)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post