علامہشبیر احمد عثمانیؒ (1949-1885ء) تحریک پاکستان کے صف اول کے قائدین میں سے تھے۔ مشرقی پاکستان کا پہلا پرچم بھی انہوں نے ہی لہرایا تھا۔ جب علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی تفسیر عثمانی، (حاشیہ قرآن مجید برترجمہ شیخ الہند حضرت محمود الحسن قدس سرہ (م 1339ھ/ 1920ء) مدینہ پریس بجنور (ہندوستان) سے طبع ہو کر قارئین کو ہاتھوں میں آئی تو حضرت مولانا ابو السعد احمد خان قدس سرہ نے بھی اس کا مطالعہ فرمایا۔ آپ نے بعد از مطالعہ حضرت علامہ شبیراحمد عثمانی قدس سرہ کی خدمت میں ایک مکتوب گرامی تحریر فرمایا، جس میں لکھا:
’’آپ نے یہ تفسیر لکھ کر اہل اسلام پر ایک احسان عظیم فرمایا ہے، میں تہجد کی نماز پڑھ کر روزانہ آپ کی درازی عمر کی دعا کرتا ہوں کہ یہ علمی فیضان آپ کی ذات سے برابر جاری رہے۔‘‘
حضرت مولانا ابو السعد خان قدس سرہ کے وصال (م1360ھ) پر حضرت مولانا ابو الخلیل خان محمدؒ، حضرت جان محمد صاحبؒ (باگڑ والے) اور ڈاکٹر محمد شریف صاحبؒ دیوبند تشریف لے گئے تو حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی قدس سرہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جو ان دنوں صاحب فراش تھے۔ انہوں نے کمال محبت سے مذکورہ بالا چاروں معزز مہمانوں کو اپنے دولت خانہ کے اندر بلوایا اور آغاز کلام یوں فرمایا:
’’ میرے خصوصی معالج مجھے زیادہ گفتگو سے منع کرتے ہیں، لیکن میری لطافت اور فکری صلاحیتیں حالت مرض میں عام لوگوں کے برعکس زیادہ ابھرتی ہیں اور جلا پاتی ہیں۔‘‘
آپ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا ’’بعض لوگ ظاہری علوم پڑھتے ہیں اور کسی شیخ طریقت کی صحبت سے مستفید نہیں ہوتے، جس کے باعث وہ خشک ملا رہ جاتے ہیں۔ امور شرعیہ میں ایسے لوگوں کی تائید و توثیق کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ کچھ لوگ علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں، ان کی تائید و تصدیق بھی درخور اعتنا نہیں۔‘‘
پھر آپ نے حضرت مولانا محمد عبد اللہ لدھیانویؒ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ کے شیخ راسخ فی العلم تھے، حق تعالیٰ نے انہیں علوم شرعیہ سے کماحقہ نوازا تھا اور انہوں نے شیخ کامل کی صحبت میں تمام منازل عرفاں کو بھی طے کیا تھا۔ میری تفسیر کے مطالعے کے بعد گرامی نامہ انہوں نے مجھے لکھا ہے، اسے میں نے حرز جاں سمجھ کر محفوظ کر رکھا ہے اور اپنے اعزہ و اقارب کو وصیت کی ہے کہ میری وفات کے بعد اسے میری قبر میں رکھ دیا جائے تاکہ میرے لیے نجات اخروی کا وسیلہ بن سکے۔‘‘(بے مثال واقعات)
Next Post