معارف و مسائل
فَاَوْحیٰ… الخ: اوحی کی ضمیر فاعل حق تعالیٰ کی طرف راجع ہے اور عبدہ کی ضمیر بھی، معنی یہ ہیں کہ جبرئیل امین کو معلم کی حیثیت میں رسول اکرمؐ کے بالکل قریب بھیج کر حق تعالیٰ نے آپؐ کی طرف وحی نازل فرمائی۔
ایک علمی اشکال اور اس کا جواب:
یہاں جو ظاہری شکل میں ایک علمی اشکال یہ محسوس ہوتا ہے کہ اوپر کی آیات میں ضمیریں جمہور مفسرین و محدثین نے جبرئیل امینؑ کی طرف راجع کی ہیں۔ فَاستَویٰ سے لے کر فَکَانَ قَابَ قَوسَیْن تک سب ضمیریں جبرئیلؑ ہی کی طرف راجع ہیں اور اگلی آیات میں بھی بقول جمہور مفسرین جبرئیل (علیہ السلام) ہی کا ذکر ہے، تو صرف اس آیت میں اوحی اور عبدہ کی ضمیر حق تعالیٰ کی طرف راجع کرنا نظم و نسق عبارت کے خلاف اور انتشار ضمائر کا موجب ہے۔ اس کا جواب استاد محترم حضرت مولانا سید محمد انور شاہؒ نے یہ دیا ہے کہ نہ یہاں نظم کلام میں کوئی اختلال ہے نہ انتشار ضمائر، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سورئہ نجم کی شروع آیت میں اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ کا ذکر فرما کر جس مضمون کی ابتدا کی گئی ہے، اسی کا نہایت منضبط بیان اس طرح کیا گیا کہ وحی بھیجنے والا تو ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں، مگر اس وحی کو پہنچانے میں ایک واسطہ جبرئیل کا تھا، چند آیات میں اس واسطے کی توثیق پوری طرح کرنے کے بعد پھر اَوْحیٰ… فرمایا، تو یہ ابتدائی کلام کا تکملہ ہے اور اس میں انتشار ضمیر اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اوحیٰ اور عبدہ کی ضمیر میں اس کے سوا کوئی احتمال ہی نہیں، وہ حق تعالیٰ کی طرف راجع ہو، اس لئے یہ مرجع پہلے سے متعین ہے اور ما اوحیٰ یعنی ’’جو کچھ وحی فرمانا تھا‘‘ اس کو مبہم رکھ کر اس کی عظمت شان کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، صحیح بخاری باب بدا الوحی کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جو وحی کی گئی، وہ سورئہ مدثر کی ابتدائی آیات ہیں۔
اس پورے نظم کلام سے قرآن کریم کی حقانیت اور اس کا ٹھیک کلام حق ہونا ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح حضرات محدثین احادیث رسولؐ کی سند اپنے سے لے کر رسول اقدسؐ تک مکمل بیان کرتے ہیں، ان آیات میں حق تعالیٰ نے قرآن کی سند اس طرح بیان فرما دی کہ موحی یعنی وحی کرنے والا خود حق تعالیٰ ہے اور معلم و مبلغ جو حق تعالیٰ اور رسول اکرمؐ کے درمیان واسطہ سند ہیں، وہ جبرئیل امین ہیں، آیات مذکورہ میں جبرئیلؑ کی جلالت شان اور شدید القویٰ ہونا گویا اس واسطہ سند کی تعدیل ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post