تیمار داری: ایک بھولی ہوئی سنت (دوسرا حصہ)

0

عبدالمالک مجاہد
مریض اس بات کا طلب گار ہوتا ہے کہ اس کی دلجوئی کی جائے ۔ کوئی ہو جو اس کے پاس آ کر بیٹھے، اس سے باتیں کرے، اس کا حال پوچھے، اس کی تیمار داری کرے۔ سیدنا قیس بن سعد بن عبادہؓ بڑے مشہور صحابی ہیں۔ ان کا گھرانہ بڑا سخی تھا۔ رب تعالیٰ نے انہیں خوب دے رکھا تھا۔ بنو خزرج کے اس سردارابن سردار سے بہت سے لوگ قرض لے جاتے تھے۔ ضرورت مند لوگ قرض لے تو لیتے ہیں، مگر اس کی واپسی اتنی آسان نہیں ہوتی۔ ایک مرتبہ قیسؓ بیمار ہو گئے۔ اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ لوگ ان کی تیمار داری کے لیے آئیں، مگر بنو خزرج کے اس سردار کا گھر مہمانوں سے خالی ہے۔ بیوی سے پوچھا: میں بیمار ہوں۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ میری تیمار داری کے لیے نہیں آئے؟! بیوی کہنے لگیں: آپ کو معلوم ہے کہ مدینہ کے اکثر لوگوں نے آپ سے قرض لے رکھا ہے۔ ان کے وعدے گزر چکے ہیں، مگر وہ قرض واپس نہیں کر سکے۔ وہ آپ سے شرمندہ ہیں اور آپ کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔
قیسؓ کہنے لگے: اچھا! تو یہ بات ہے کہ لوگ قرض واپس نہ کرسکنے کی وجہ سے میری تیمار داری کے لیے نہیں آئے۔ کہنے لگے: برا ہو ایسے مال کا! جو لوگوں کو میری تیمار داری سے روک رہا ہے۔ منادی کرنے والے کو بلایا۔ اس سے کہا: جاؤ! مدینہ کے بازاروں میں اعلان کر دو کہ جس کسی نے قیس بن سعد کا قرض دینا ہے، قیس کی طرف سے اعلان ہے کہ ا س کا قرض معاف کیا جاتا ہے۔
اعلان کرنے کی دیر تھی کہ لوگ اتنی کثرت سے ان کے گھر تیمار داری کے لیے آتے ہیں کہ گھر کے دروازے کی دہلیز ٹوٹ جاتی ہے۔
ایک دن رسول اقدسؐنے فرمایا: تم میں سے کون ایسا شخص ہے، جس نے آج روزہ رکھا ہوا ہے؟ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے عرض کی: حضور! میں نے آج روزہ رکھا ہوا ہے۔
آپؐ نے پوچھا: آج تم میں سے کس نے کسی مسلمان بھائی کا جنازہ پڑھا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا: حضور! میں نے جنازہ پڑھا ہے۔
ارشاد ہوا: آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ ابوبکر صدیقؓ عرض کر رہے ہیں: حضور! میں نے آج مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔
آپؐ نے پوچھا کہ آج تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ عرض کرتے ہیں: حضور! میں نے آج مریض کی عیادت کی ہے۔ آپؐ یہ الفاظ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جس شخص میں یہ ساری خوبیاں جمع ہو جائیں وہ یقینا جنت میں جائے گا۔‘‘ (رواہ مسلم)
قارئین کرام! ذرا غور کیجیے! ان خوبیوں میں سوائے روزے کے باقی ساری خوبیاں اخلاق حسنہ اور دوسروں سے حسن سلوک کی نشان دہی کرتی ہیں۔ رسول اقدسؐ نے اپنی امت کے مریض کی عیادت کے اجر و ثواب کے حوالے سے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کی بیمار پرسی کی، وہ جب تک اس کے پاس رہے، جنت کے باغیچہ میں رہتا ہے۔‘‘
وہ لوگ کتنے خوش قسمت اور خوش نصیب ہیں، جو اپنی گوناں گوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر اہتمام کے ساتھ اسپتالوں میں جاتے ہیں اور ایسے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں، جنہیں وہ جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ انہیں سلام کرتے ہیں۔ ان کے پاس بیٹھتے ہیں۔ ان کے چھوٹے موٹے کام کر دیتے ہیں۔
قارئین کرام! آئیے، ذرا تھوڑی دیر کے لیے اپنے پیارے رسولؐ کے اسوئہ حسنہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ آپؐ کو جب معلوم ہوتا کہ فلاں صحابی مریض ہے تو آپؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے، حتیٰ کہ بعض اوقات کسی یہودی کے بارے میں آپؐ کو معلوم ہوتا کہ وہ مریض ہے تو آپؐ اس کی تیمار داری کے لیے بھی تشریف لے جاتے۔ یہ آپؐ کا اعلیٰ اخلاق بھی تھا اور اپنی امت کو درس دینا بھی مطلوب تھا۔ آپؐ کو معلوم ہوا کہ ایک یہودی لڑکا بیمار ہے۔ یہ آپؐ کا ہمسایہ بھی تھا اور کبھی کبھار آپؐ کی خدمت بھی کیا کرتا تھا۔ آپؐ اس کی تیمار داری کے لیے اس کے گھر تشریف لے جاتے ہیں، اس کی خوش قسمتی کے کیا کہنے کہ رسول اکرمؐ اس کے گھر تشریف لے گئے۔ آپؐ نے اس کی تیمار داری کی۔ اس کے جسم پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ اسلام قبول کر لو۔ لڑکے کا والد بھی اپنے بیٹے کے سرہانے موجود تھا، اس نے اپنے والد کی طرف دیکھا گویا وہ اپنے والد سے اسلام قبول کرنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔ والد نے اپنے بیٹے سے کہا: ’’بیٹے! ابو القاسمؐ کی بات مان لو۔‘‘ بیٹے نے رسول اقدسؐ کی بات تسلیم کر لی اور کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوکر اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔
قارئین کرام! ذرا غور کیجیے، رسول اقدسؐ اس کائنات کی مصروف ترین شخصیت، اپنے تمام کاموں کو چھوڑ کر ایک مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ ذرا اس پر بھی غور کیجیے کہ مریض کوئی مسلمان نہیں، بلکہ یہودی ہے۔ آپؐ اس طرح اپنی امت کو سکھانا اور بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام میں عیادت کی کیا اہمیت ہے۔غیر مسلم بھی اگر آپ کا ہمسایہ یا محلے دار ہے تو اس کی بھی مزاج پرسی کرنا سنت رسول کریمؐہے۔
رسول اکرمؐ اپنی امت کے ہر فرد کے ساتھ نہایت رحم کرنے والے ہیں۔ آپؐ کے عہد میں ایک صحابیہ جن کا نام ام السائبؓ تھا۔ یہ بوڑھی انصاریہ خاتون تھیں۔ آپؐ کو معلوم ہوا کہ وہ بیمار ہیں ۔ تو آپؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کے بلند اخلاق کو ملاحظہ کیجیے، نبی رحمتؐ، امت کو سکھا رہے ہیں کہ اگر کوئی عورت بھی بیمار ہے تو اس کی عیادت کے لیے بھی جایا جا سکتا ہے۔ آپؐ جب اس کے پاس پہنچے تو اسے سخت بخار تھا۔ جسم گرم تھا، ام السائب بوڑھی خاتون، بخار کو کوس رہی ہیں، برا بھلا کہہ رہی ہیں کہ اس بخار کا برا ہو، وغیرہ وغیرہ۔ رسول اکرمؐ اپنی صحابیہؓ کو نصیحت فرما رہے ہیں: ام السائب! بخار کو گالی نہ دو۔ اسے برا بھلا نہ کہو۔ بخار سے بنی آدم کے گناہ اس طرح صاف ہو جاتے ہیں، جس طرح گرم بھٹی میں لوہے کو ڈالا جائے تو اس کا زنگ صاف اور دور ہو جاتا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More