تذکرۂ شہید میں لکھا ہے کہ: دہلی کی شارع عام مردوں، عورتوں، تاجروں اور مزدوروں کی ریل پیل، بیل گاڑیوں اور تانگوں کی آمدورفت سے بہتے دریا کا منظر پیش کر رہی تھی کہ اچانک بازار میں خاموشی چھا گئی۔ خریداروں اور دکانداروں کی نگاہیں بگھیوں اور رتھوں میں جلوہ افروز حسیناؤں پر ٹک گئیں۔ یہ حسینائیں جو بن سنور کر اپنے اپنے بالا خانوں میں عیاش امیر زادوں کو داد عیش دے کر ان کی دولت دنیا پر ڈاکہ ڈالتی تھیں۔ آج بھڑکیلے ملبوسات زیب تن کرکے باہر نکلیں تو لوگ خریدو فروخت بھول گئے اور ان کی طرف دیکھتے رہ گئے۔ یہ لڑکیاں سب سے بے نیاز اپنی اداؤں سے سب کو گھائل کرتی مدرسہ عزیزیہ کے دروازے سے گزر رہی تھیں کہ حضرت شاہ محمد اسماعیلؒ کی نظر ان پر پڑ گئی! تو کیا شاہ صاحبؒ آنکھیں بند کر کے چہرے پر رومال ڈال کر تیزی سے اس جگہ سے چلے گئے؟ نہیں جناب! حضرت نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ ساتھیوں نے بتایا کہ حضرت! یہ طوائفیں ہیں اورکسی ناچ رنگ کی محفل میں جا رہی ہیں۔
حضرت شاہ صاحب نے فرمایا: اچھا یہ تو معلوم ہوا، لیکن یہ بتاؤ کہ یہ کس مذہب سے تعلق رکھتی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جناب یہ دین اسلام ہی کو بدنام کرنے والی ہیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں۔ شاہ صاحبؒ نے جب یہ بات سنی تو فرمایا: مان لیا کہ بدعمل اور بدکردار ہی سہی، لیکن کلمہ گو ہونے کے اعتبار سے ہوئیں تو ہم مسلمانو ں کی بہنیں ہی، لہٰذا ہمیں انہیں نصیحت کرنی چاہیے، ممکن ہے کہ گناہ سے باز آ جائیں۔ ساتھیوں نے کہا ان پر نصیحت کیا خاک اثر کرے گی؟ بلکہ ان کو نصیحت کرنے والا تو الٹا خود بدنام ہو جائے گا! (تو کیا شاہ صاحب بدنامی کے ڈر سے اپنے ارادے سے پھر گئے؟ نہیں جناب! شاہ صاحب نے فرمایا: تو پھر کیا ہوا؟ میں تو یہ فریضہ ادا کر کے رہوں گا، خواہ کوئی کچھ سمجھے!
ساتھیوں نے عر ض کیا: حضرت! آپ کا ان کے پاس جانا قرین مصلحت نہیں ہے۔ آپ کو پتا ہے کہ شہر کے چاروں طرف آپ کے مخالفین ہیں، جو آپ کو بدنام کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ آپ نے فرمایا: مجھے ذرہ بھر پروا نہیں، میں انہیں ضرور نصیحت کرنے جاؤں گا! اس عزم صمیم کے بعد آپ تبلیغ حق و اصلاح کا عزم صادق لے کر گھر میں تشریف لائے، درویشانہ لباس زیب تن کیا اور تن تنہا نائیکہ کی حویلی کے دروازے پر پہنچ گے اور صدا لگائی: نیک بیبیو! دروازہ کھولو اور فقیر کی صدا سنو! آپ کی آواز سن کر چند لڑکیاں آئیں۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو دیکھا باہر درویش صورت بزرگ کھڑا ہے۔ انہوں نے سمجھا کہ یہ کوئی گدا گر فقیر ہے، سو انہوں نے چند روپے لا کر تھما دیئے، لیکن اس نے اندر جانے کا ا صرار کیا اور پھر اندر چلے گئے!
شاہ صاحب نے دیکھا کہ چاروں طرف شمعیں اور قند یلین روشن ہیں، طوائفیں، طبلے اور ڈھولک کی تھاپ پر تھرک رہی ہیں، ان کی پازیبوں اور گھنگھروں کی جھنکار نے عجیب سماں باندھ رکھا ہے، جونہی نائیکہ کی نگاہ اس فقیر بے نوا پر پڑی اس پر ہیبت طاری ہوگئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے سامنے فقیرانہ لباس میں گداگر نہیں، بلکہ شاہ اسماعیلؒ کھڑے ہیں۔ وہ جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پوتے اور شا ہ عبدالعزیزؒ، شاہ رفیع الدینؒ اور شاہ عبد القادرؒ کے بھتیجے ہیں۔ نائیکہ تیزی سے اپنی نشست سے اٹھی اور احترام کے ساتھ ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ بڑے ادب سے عرض کیا: حضرت آپ نے ہم سیاہ کاروں کے پاس آنے کی زحمت کیوں کی؟ آپ نے پیغام بھیج دیا ہوتا تو ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتیں! (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post