کسی جانور کی خریداری کے وقت کسی کو شریک کرنے کی نیت کی ہے یا نہیں کی، دونوں صورتوں میں اگر خریدار مالدار ہے تو دوسرے لوگوں کو شریک کر سکتا ہے اور اگر خریدار مالدار نہیں بلکہ فقیر ہے تو اس صورت میں اگر جانور خریدتے وقت کسی اور آدمی کو شریک کرنے کی نیت تھی تو دوسرے آدمی کو شریک کرسکتا ہے اور اگر جانور خریدتے وقت کسی اور آدمی کو شریک کرنے کی نیت نہیں تھی تو خرید نے کے بعد کسی اور آدمی کو شریک نہیں کرسکتا۔
کسی پر قربانی واجب تھی، مگر اس نے ابھی قربانی نہیں کی تھی کہ قربانی کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی وہ مر گیا تو اس سے قربانی ساقط ہوگئی، قربانی کے لئے وصیت کرنا اور وارثوں کیلئے اس کی طرف سے قربانی کرنا لازم نہیں ہوگا۔ اگر کوئی صاحب نصاب قربانی کے ایام میں انتقال کر گیا اور اس نے اس سال کی قربانی نہیں کی، تو اس سے قربانی کا وجوب ساقط ہو جائے گا۔
اگر کسی صاحب نے نصاب آدمی نے قربانی کی نذر مانی تو اس کو قربانی کے ایام میں دو قربانیاں کرنی ہوں گی۔ ایک قربانی تو منت کی وجہ سے لازم ہوگی اور دوسری قربانی صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے لازم ہوگی۔
صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے اور قربانی واجب ہونے کی دلیل سنن ابن ماجہ میں مروی ہے: ’’یعنی جس کو وسعت ہے اور وہ قربانی نہ کرے تو ہمارے مصلی (عیدگاہ) کے قریب نہ آئے۔‘‘ (ابو اب الاضاحی ج: 1ص:226 قدیمی کتب خانہ)
ظاہر ہے کہ صاحب نصاب وسعت والا ہے، پس اگر ایک گھر میں دو افراد صاحب نصاب ہیں تو دونوں پر قربانی واجب ہوگی۔ اور چار ہوں تو چاروںپر اور ایک ہو تو ایک پر۔
کسی پر قربانی واجب تھی، مگر اس نے ابھی قربانی نہیں کی تھی کہ قربانی کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہی وہ غریب ہوگیا، تو اس سے قربانی ساقط ہو جائے گی۔
مریض کی صحت کی نیت سے خالص خدا تعالیٰ کی رضامندی کیلئے کوئی جانور ذبح کرنا جائز ہے، البتہ زندہ جانور کا صدقہ کر دینا زیادہ بہتر ہے۔
جس پر صدقہ فطر واجب ہے، اس پر عید کے دنوں میں قربانی کرنا بھی واجب ہے اور اگر اتنا مال نہ ہو، جتنے کے ہونے سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے، لیکن پھر بھی اگر قربانی کرے گا تو ثواب ملے گا۔
جس مرد یا عورت پر قربانی واجب ہے، اس پر ضروری ہے کہ قربانی کے تین دنوں میں سے کسی دن جانور ذبح کر کے قربانی کرے، قیمت صدقہ کرنے سے یا کسی دوسرے نیک کام میں لگا دینے سے قربانی کی ذمہ داری ادا نہیں ہوگی۔ صدقہ کرنے سے صدقہ کا ثواب ملے گا، لیکن قربانی نہ کرنے کا گناہ ہوگا۔
بڑے جانور میں عقیقہ کی نیت سے متعدد افراد شریک ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ تمام شرکاء کی نیت قربانی یا عقیقہ کی ہو۔ بڑے جانور میں بعض شرکاء قربانی کی نیت سے اور بعض عقیقہ کی نیت سے شریک ہو سکتے ہیں۔ عقیقہ کی نیت سے قربانی کے جانور میں حصہ لینے سے کسی کی قربانی باطل نہیں ہوگی۔
عمر اور دانت:
قربانی کیلئے جانور خریدتے وقت عام طور پر جانور کے دانت دیکھنے کا رواج ہے، اگر کیرا ہے تو نہیں لیتے اور اگر کیرا نہیں ہے تو لیتے ہیں، حالانکہ شریعت میں عمر کا اعتبار ہے، دانت کا اعتبار نہیں ہے۔ البتہ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ ؒ کی رائے یہ ہے کہ قربانی کیلئے جانوروں کی عمریں متعین ہیں، چونکہ اکثر حالات میں جانوروں کی صحیح عمر معلوم نہیں ہوتی، اس لئے ان کے دانتوں کو عمر معلوم کرنے کا اور اس پر عمل کرنے کا احتیاطاً حکم دیا گیا ہے۔ دانتوں کی علامت ایسی ہے کہ اس میںکم عمر کا جانور نہیں آسکتا ہے، وہاں زیادہ عمر کے جانور کا آجانا ممکن ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں، پس اگر کسی شخص کے گھر کا بکرا یکم ذی الحجہ کو پیدا ہوا اور اسی کے گھر میں پرورش پاتا رہا تو آئندہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو وہ ایک سال نو دن کا ہوگا، اب اگر اس کے پکے دانت نہ نکلے ہوں تب بھی وہ اس کی قربانی کر سکتا ہے، کیونکہ اس کی عمر یقینا ایک سال کی پوری ہو کر آٹھ نو دن زائد ہو چکی ہے، لیکن اس سے یہ حکم نہیں دیا جا سکتا کہ بے دانت ہر بکرا قربانی کیا جا سکتا ہے، خواہ اس کی عمر ایک سال ہونے کا یقین ہو یا نہ ہو۔ (کفایت المفتی: ج: 8 ص217 ط: دارالاشاعت)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post