ربّ پر توکل معجزے دکھاتا ہے

0

شیخ ابراہیم الحازمی (استاذ کنگ سعود یونیورسٹی ریاض) لکھتے ہیں کہ:
حق تعالی کا محبوب بننے کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ توکل اختیار کیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’خدا یقیناً توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’جو کوئی خدا پر بھروسہ کرے تو خدا اس کا کام بنانے کے لیے کافی ہے۔‘‘
کم سن ’’فیصل‘‘ نے ٹریگر پر ہاتھ رکھ دیا، جس کے نتیجے میں گولی نکل گئی اور اس کے بھائی ’’فرج‘‘ کے آر پار ہوگئی اور وہ لمحہ بھر میں خون میں لت پت زمین پر گر گیا۔ گولی بچے کے پیٹ کو چیرتے ہوئے آنتوں کو لے کر اگلی جانب سے آر پار ہوگئی۔ فرج کے والد اور اس کے چچا (جن کی بندوق تھی) کی آنکھیں اس منظر کو دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور زمین اس کے پاؤں سے نکل گئی۔ یہ اتنا اچانک ہوا تھا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، کیوں کہ وہ بچوں کی گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے سیر و تفریح کے لیے جا رہے تھے اور یوں بڑوں کی ایک معمولی غفلت کی بنا پر ان کا ہنستا مسکراتا دن سیاہ ماتم اور تاریک اندھیرے میں بدل گیا۔
’’فرج‘‘ تو خوشیوں سے پھولے نہیں سما رہا تھا کہ اس مرتبہ وہ تعطیلات اپنے چچا عبداللہ کے لہلہاتے کھیتوں اور سرسبز و شاداب باغات میں گزارے گا۔ چچا نے بھی کافی عرصے سے پروگرام بنا رکھا تھا کہ اس مرتبہ تعطیلات ان کی زمینوں کی سیر میں گزاریں گے۔ چناں چہ ان کا قافلہ سبک رفتار کار میں ہرے بھرے باغات اور تازہ فصلوں کے درمیان بنی بل کھاتی سڑکوں پر گزرتا ہوا عبداللہ کی زمینوں پر پہنچا۔ سب لوگ گاڑیوں سے نیچے اترے اور باغات کی طرف چل پڑے۔
عبداللہ نے گاڑی سے سب سامان اتارا اور گاڑی کے قریب ہی ایک جگہ رکھ دیا۔ وہیں پر انہوں نے اپنی بندوق بھی رکھی۔ ان کے تو وہم و تصور میں بھی نہیں تھا کہ یوں بندوق کا رکھ دینا کیا گل کھلائے گا!
بہر حال سب بڑے حضرات تو وہاں سے آگے چلتے رہے اور گاڑی کے نزدیک ہی فیصل اور فرج کھیل کود میں مصروف ہوگئے۔
کھیلتے کھیلتے فیصل کی نگاہ سامان کے قریب رکھی بندوق پر پڑی اور اسے نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے بندوق اٹھالی اور اوپر نیچے اور اس کاجائزہ لینے لگا۔ اس نے ٹریگر پر ہاتھ رکھا اور اس سے بٹن دب گیا اور ایک خوں خوار گولی سیکنڈوں میں بندوق سے آزاد فضاؤں میں آئی اور قریب ہی کھڑے کم سن چچا زاد بھائی ’’فرج‘‘ کے آر پارہوگئی۔ گولی آواز ایسی ہیبت ناک تھی کہ درختوں پر بھی زلزلہ طاری ہوگیا۔
گولی کی آواز جب بڑوں نے سنی تو وہ بھی سہم گئے اور فوراً دوڑتے ہوئے جائے واردات پر پہنچے اور جو منظر دیکھا تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔
’’فرج‘‘ اور ’’فیصل‘‘ دونوں کے والدین پر سکتہ طاری ہوگیا اور دونوں حیرت کی تصویر بنے ایک دوسرے کو تکنے لگے کہ ان پر اتنی بڑی قیامت ٹوٹ چکی تھی اور ان کا لخت جگر گوشت کے ایک لوتھڑے کی مانند زمین پر ایسے گرا ہوا تھا کہ اس میں حرکت بھی نہیں تھی۔
بہرحال دونوں نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے امدادی کام تیز کر دیا اور سب سے پہلے ایک بڑی چادر سے زمین پر گری ہوئی آنتوں کو سمیٹ کر اسے پیٹ میں باندھا اور گاڑی میں دوڑ پڑے۔ گاڑی دشوار گزار راستوں پر دوڑتی ہوئی تبوک شہر میں واقع سب سے بڑے اسپتال ’’ملک خالد اسپتال‘‘ کے ایمرجنسی روم کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی۔
بجلی کی سی تیزی سے اسے ضروری امداد فراہم کی گئی۔ بعدازاں آپریشن کی تیاری شروع کردی گئی۔ ہرگزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ ان کا دل دھک دھک کر رہا تھا نہ جانے کیا بنے گا؟ کیوں کہ بظاہر اس کے بچنے کے امکانات بہت ہی کم تھے۔ دوسری طرف فیصل کے آنسو ایسے رواں تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ سب خوف ناک قسم کی اعصابی جنگ میں مبتلا تھے۔
آپریشن روم میں سفید چادریں بچھائی تھیں اور نرسیں بار بار اندر آجا رہی تھیں، یہاں تک کہ ظہر کی نماز کے بعد ٹھیک تین بجے ’’ڈاکٹر خالد نجار‘‘ اپنے عملے کے ہم راہ آپریشن روم میں داخل ہوئے اور ’’فرج‘‘ کی زندگی کو بچانے کے لیے بے مثل جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ بچے کی حالت انتہائی خطرے میں تھی۔ اس کی نبض میں حرکت ہی نہیں تھی۔
ڈاکٹر خالد کے بقول: ’’گولی اس کی دائیں ران سے گزرتی ہوئی پیٹ میں پہنچی اور وہاں ایک بڑا شکاف بنا کر اگلی جانب سب معصوم بچے کی آنتوں کو لیتے ہوئے آر پار ہوئی، جس کی وجہ سے پیٹ میں شدید اور انتہائی گہرے زخم آئے اور پیٹ کی بائیں جانب بھی سخت متاثر ہوئی اور مٹی میں آنتوں کے رل مل جانے سے آنتون کا ستیاناس ہوگیا۔ بچے کی ہلاکت کے لیے صرف یہی ایک بات کافی تھی کہ اوپر سے مزید یہ کہ اس کا مثانہ بھی پھٹ گیا اور پیشاب جمع ہونے والے حوض کی بڑی ہڈی بھی ٹوٹ گئی، جس سے معاملہ مزید گھمبیر ہوگیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More