معارف و مسائل

0

آیات مذکورہ کی تفسیر میں ایک اور تحقیق مفید :
نمونہ اسلاف محدثین حضرت استاذ مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری قدس سرہ جو بلاشبہ اس زمانے میں خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے، ان کے علوم بلاشبہ حافظ ابن حجرؒ اور ذہبیؒ جیسے ائمہ حدیث کے علوم کا نمونہ تھے اور مشکلات القرآن پر آپؒ کی ایک مستقل تصنیف نہایت دقیق علوم و معارف کا خزانہ ہے، سورئہ نجم کی آیات میں چونکہ صحابہؓ و تابعینؒ سے لے کر ائمہ مجہتدین اور محدثین و مفسرین کے مختلف اقوال اور ان میں علمی اشکالات معروف و مشہور ہیں، مشکلات القرآن میں آپؒ نے ان آیات کی تفسیر اس طرح فرمائی کہ بیشتر روایات میں تطبیق ہو جائے۔
پھر احقر کے دوسرے استاذ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے جب صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم تحریر فرمائی اور اسراء و معراج کے بیان میں سورئہ نجم کی ان آیات کا حوالہ آیا تو مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر ان آیات کی تفسیر خود حضرت انور الاساتذہ قدس سرہؒ کے قلم سے لکھوا کر اس کو اپنی کتاب فتح الملہم کا جز بنایا اور اپنے فوائد القرآن میں بھی اسی کو اختیار فرمایا، اس طرح یہ تحقیق احقر کے دو بزرگ اساتذہ کی متفقہ تحقیق ہوگئی، اس کے دیکھنے سے پہلے چند باتیں پیش نظر رہنا چاہئے، جو تقریباً سب علماء و ائمہ کے نزدیک مسلم ہیں، اول یہ کہ رسول اقدسؐ نے جبرئیل امینؑ کو ان کی اصلی صورت میں دو مرتبہ دیکھا اور ان دونوں مرتبہ دیکھنے کا ذکر سورئہ نجم کی آیات مذکورہ میں موجود ہے، دوسری مرتبہ کس جگہ کس زمانہ میں دیکھا، اس کو تو انہی آیات میں متعین کر کے بتلا دیا ہے کہ یہ رئویت ساتویں آسمان پر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہوئی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ساتویں آسمان پر رسول اکرمؐ کا تشریف لے جانا صرف لیلۃ المعراج میں ہوا ہے، اس سے اس رئویت کی جگہ بھی معلوم ہوگئی اور وقت بھی کہ وہ شب معراج میں ہوئی، پہلی رئویت کے محل وقوع اور وقت کا تعین ان آیات میں نہیں ہے، مگر صحیح بخاری باب بدء الوحی میں حضرت جابرؓ کی حدیث ذیل سے یہ دونوں چیزیں متعین ہو جاتی ہیں۔
’’رسول اکرمؐ نے وحی میں فترت یعنی وقفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ (ایک روز) جبکہ میں چل رہا تھا، اچانک آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جو حراء میں میرے پاس آیا تھا، آسمان و زمین کے درمیان (معلق) ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے، میں اس سے مرعوب ہو کر گھر لوٹ آیا اور کہا کہ مجھے ڈھانپ دو، اس وقت حق تعالیٰ نے سورئہ مدثر کی آیات ’’والرجز فاھجر‘‘ تک نازل فرمائیں اور اس کے بعد وحی آسمانی مسلسل آنے لگی۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جبرئیل امینؑ کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کا پہلا واقعہ فترۃ وحی کے زمانے میں مکہ معظمہ کے اندر اس وقت پیش آیا جب کہ آپؐ شہر مکہ میں کہیں جا رہے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ پہلا واقعہ معراج سے پہلے زمین مکہ پر اور دوسرا واقعہ ساتویں آسمان پر شب معراج میں پیش آیا ہے۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More