حجاج کرام کا قافلہ کوہ لبنان سے گزر رہا تھا کہ انہوں نے ایک چشمے کے پاس پڑائو ڈالا، ان میں سے ایک حاجی صاحب کا بیان ہے کہ ہماری ملاقات ایک بزرگ (ابراہیم کرمانیؒ) سے ہوئی، جب ہم عشاء کی نماز پڑھ چکے تو بزرگ نے فرمایا: کچھ کھاؤ گے؟ میں نے کہا: ہاں۔ فرمایا غار کے اندر چلے جاؤ اور جو ملے کھالو۔ میں اندر گیا تو ایک پتھر پر اخروٹ منقی، خرنوب، سیب، انجیر یہ سب چیزیں ایک ایک طرف رکھی ہوئی پائیں۔ میں نے جتنا چاہا، ان میں سے کھا لیا۔ رات بھر وہ بزرگ جاگتے ہی رہے۔ جب سحر کا وقت ہوا تو انہوں نے نماز وتر ادا کی، پھر جو کچھ موجود تھا، اس میں سے کھایا اور بیٹھے رہے۔ یہاں تک کہ صبح فجر کی نماز ادا کی اور بیٹھے ہی بیٹھے سو گئے، حتیٰ کہ آفتاب طلوع ہوکر بقدر دو نیزوں کے بلند ہوگیا تو کھڑے ہوئے اور وضو کرکے غار میں داخل ہوئے۔
میں نے دریافت کیا کہ یہ میوہ کہاں سے آتا ہے؟ اس سے اچھا تو میں نے کبھی نہیں کھایا؟ فرمایا: یہ تم آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ اتنے میں ایک پرندہ آیا، جس کے دونوں بازو سفید، سینہ سرخ اور گلا سبز تھا اور اس کی چونچ میں منقی اور پاؤں کے بیچ میں اخروٹ تھے، اس نے منقی کو منقی پر اور اخروٹ کو اخروٹ پر رکھا، جب اس کے پروں کی آہٹ سنی تو فرمایا تو نے دیکھ لیا۔ میں نے کہا ہاں۔ فرمایا یہی پرندہ میرے پاس یہ چیزیں لاتا ہے تیس سال سے۔
میں نے پوچھا دن میں کتنی بار آتا جاتا ہے؟ فرمایا: سات بار۔ میں نے حساب کیا تو پندرہ بار آیا اور گیا۔ میں نے ان سے ذکر کیا تو فرمایا: تمہارے واسطے ایک بار زیادہ لاتا ہے اور ان بزرگ کا لباس ایک چھال کا تھا۔ جو کیلے کے مثل تھا۔ میں نے پوچھا یہ کہاں سے آپ کے پاس آتا ہے؟ فرمایا یہی پرندہ عاشورہ کے روز دس ٹکڑے اس چھال کے لاتا ہے۔ میں اس کا کرتہ یا پاجامہ بنا لیتا ہوں۔ ان کے پاس ایک سُوا بھی تھا، جس سے وہ چھال سیتے تھے اور وہی پھٹی پرانی چھال کے ٹکڑے ان کے نیچے بچھے ہوئے تھے اور ان کے پاس ایک پتھر تھا، جس میں پانی ڈال کر اس کا پانی بالوں پر ملا جاتا تو بال اکھڑ جاتے۔
ایک دن میں ان کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ سات آدمی ان کے پاس آئے، جن کی آنکھیں لمبائی کی جانب پھری ہوئی اور سرخ تھیں۔ ان کا لباس ان کے بال ہی تھے۔ مجھ سے فارسی میں فرمایا: ان سے نہ گھبراؤ، یہ مسلمان جن ہیں۔ ایک نے سورۃ طہ آپ کو سنائی اور دوسرے نے سورۃ فرقان اور ایک نے سورۃ رحمن کی کچھ آیتیں آپ سے سیکھیں۔ پھر وہ چلے گئے۔ میں نے انہیں بعض مرتبہ سجدۃ میں یہ دعا پڑھتے سنا۔
’’اللھم امنن علی باقبالی علیک واصغائی الیک و انصاتی لک والفھم عنک والبصیرۃ فی امرک والنفاد فی خدمتک وحسن الادب فی معاملتک‘‘
اور اس دعا کو آواز سے پڑھتے تھے۔ میں نے کہا آپ نے یہ دعا کس سے سیکھی؟ فرمایا: مجھے اس کا الہام کیا گیا۔ ایک رات میں یہ دعا پڑھ رہا تھا کہ میں نے ایک ہاتف کو کہتے سنا کہ جب تم یہ دعا مانگو تو آواز سے پڑھو، یہ دعا مقبول ہے۔ میں ان کے پاس چوبیس روز تک رہا، پھر مجھ سے فرمایا کہ اپنا قصہ بیان کر، تو میرے پاس یہاں کیونکر پہنچا؟ میں نے قصہ بیان کیا۔ فرمایا: اگر تیرا یہ قصہ پہلے معلوم ہوتا تو تجھے اپنے پاس اتنے دنوں نہ رہنے دیتا۔ تو نے اپنے ساتھیوں کو پریشان کیا۔ انہیں تاخیر کے سبب سے ندامت ہوگی۔ تمہارا ان کے پاس لوٹ جانا میرے پاس ٹھہرے رہنے سے اچھا ہے۔
میں نے کہا: میں راستہ نہیں جانتا۔ آپ خاموش رہے، جب زوال کا وقت آیا تو فرمایا: اٹھو چلو۔ میں نے کہا مجھے کچھ نصیحتیں کیجئے۔ فرمایا ادب سیکھو اور بھوکا رہنا اختیار کرو، مجھے امید ہے کہ تم قوم سے مل جاؤ گے اور مجھے ایک ہدیہ بھی دیا اور وہ یہ کہہ فرمایا: تم طواف زیارت کے دن زمزم اور مقام ابراہیم کے درمیان ڈھونڈو، ایک شخص ان صفات کا ملے گا، ان سے میرا سلام کہو اور اپنے واسطے دعا کی خواستگاری کرو۔ پھر وہ مجھے لے کر غار سے باہر نکلے۔ دیکھا تو ایک درندہ غار کے دروازے کے باہر کھڑا ہے، اس سے آپ نے کچھ کہا، جسے میں نے نہ سمجھا اور مجھ سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلے جاؤ۔ جب وہ کھڑا ہو جائے تو اپنے سیدھے بائیں طرف دیکھنا، تمہیں راستہ مل جائے گا۔
وہ درندہ تھوڑی دیر میرے آگے چلا، پھر کھڑا ہوگیا۔ جب میں نے اپنی سیدھی جانب نظر کی تو دمشق کی گھاٹی نظر آئی۔ میں دمشق کی جامع مسجد میں گیا تو بعض ساتھیوں سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے قصہ بیان کیا اور ہم سب ان کی تلاش میں نکلے اور بہت سے آدمی میرے ساتھ ہوئے، چنانچہ ہم اسی پہاڑ اور چشمے پر پہنچے اور تین دن تک اس غار کو ڈھونڈا، مگر اس کا پتہ نہ چلا، پھر انہوں نے کہا یہ چیز تم پر ظاہر ہوگئی اور ہم سے پوشیدہ کی گئی ہے۔ میں ہر سال حج کرتا تھا اور اس شخص کو جس کا اس بزرگ نے پتہ دیا تھا، تلاش کرتا تھا۔ وہ مجھے نہ ملے، حتیٰ کہ آٹھ دس برس گزر گئے۔ اس کے بعد میں نے اس شخص کو جن کا پتہ اس بزرگ نے دیا تھا، زمزم اور مقام ابراہیم کے درمیان بعد عصر کے پایا۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب دیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ میرے لئے دعا فرمائیں۔ انہوں نے میرے واسطے چند دعائیں کیں۔ پھر میں نے کہا کہ ابراہیم کرمانیؒ آپ کو سلام کہتے ہیں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ تم نے انہیں کہاں دیکھا؟ میں نے کہا کوہ لبنان پر۔ مجھ سے کہا: خدا ان پر رحم کرے۔ میں نے کہا: کیا ان کی وفات ہوگئی؟ کہا اسی وقت میں نے ان کو ان کے بھائیوں کے ہمراہ غار میں دفن کیا ہے اور ان کی نماز ادا کی ہے، جب ہم غسل دیتے تھے تو اس وقت وہ پرندہ جو ان کیلئے میوے لایا کرتا تھا، گر پڑا اور پر مارتے مارتے مر گیا۔ ہم نے اسے بھی ان کے پاؤں کے پاس دفنا دیا۔ پھر وہ شخص طواف کے واسطے چلے گئے۔ اس کے بعد میں نے انہیں نہیں دیکھا۔
حاصل… بیشک اولیاء کی شان ہی نرالی ہوتی ہے، خدا سے تعلق جڑنے کے بعد یہ دنیا سے بے نیاز ہو جاتے ہیں، انہیں دنیا کے اسباب کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اور حق تعالیٰ خود غیب سے ان کی مدد فرماتے ہیں۔ رب تعالیٰ ہمیں بھی نیک بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔(سبق آموز واقعات)
Prev Post
Next Post