افغانستان میں سترہ سال سے جاری جنگ میں بدترین ناکامی اور جنگ ختم نہ ہونے کے آثار دیکھ کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ کی ذمے داری بدنام زمانہ تنظیم ’’بلیک واٹر‘‘ کو دینے پر غور شروع کردیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی محکمہ دفاع ’’پینٹاگون‘‘ کی حکمت عملی سے قطعی مایوس ہوچکے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس کی اس تجویز پر غور کرنا شروع کردیا ہے کہ افغان جنگ کو پرائیویٹ ٹھیکیداروں کے حوالے کردیا جائے۔ بلیک واٹر کے بانی نے گزشتہ سال افغان جنگ سے متعلق امریکی کمانڈ انچیف کی نظرثانی کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پرائیویٹ مسلح افراد سے مدد لے کر افغانستان پر تسلط برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ایرک پرنس کے خیال میں امریکی محکمہ دفاع نے جو کچھ مانگا، اسے دیا گیا، لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ افغانستان میں شدید جانی و مالی نقصان کے بدلے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کچھ نہیں ملا۔ نتیجہ یہ کہ انہیں اپنے ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلانا پڑا۔ امریکا کے چند ہزار فوجی افغانستان میں موجود ہیں، جو کٹھ پتلی افغان حکومت کے تحفظ میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ ملک سے طالبان کا زور توڑنے میں بری طرح ناکام رہے، جو غزنی سے کابل کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان طالبان کا ملک کے ستر تا اسی فیصد رقبے پر اثر ونفوذ ہے۔ اشرف غنی خود اور ان کی حکومت کے ارکان کابل کے صدارتی محل اور سرکاری عمارتوں سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرتے، جبکہ امریکی فوجیوں کی جانب سے ان کے لئے تحفظ و سلامتی کے زبردست انتظامات کئے جاتے ہیں۔ امریکا کے بعد افغان طالبان بھی اپنے ملک سے جنگ کو ختم کرنے کے لئے مذاکرات کے لئے آمادہ ہیں۔ تاہم طالبان قیادت کا کہنا ہے کہ جب تک افغانستان پر ’’غیر ملکی فوجی قبضہ‘‘ جاری رہے گا، جنگ ختم نہیں ہوسکتی۔ طالبان اپنے ملک میں امریکی فوجی دستوں کی موجودگی کو غیر ملکی فوجی قبضے کا نام دیتے ہیں اور اس کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔ گزشتہ چند روز کے دوران کابل کے اردگرد طالبان کے حملوں اور دارالحکومت کی جانب ان کی تیزی سے پیش قدمی کے باعث، جہاں امریکی تربیت یافتہ کٹھ پتلی حکومت کے سرکاری فوجی خوفزدہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہاں موجود امریکی فوجیوں کے حوصلے بھی پست ہوتے جارہے ہیں اور وہ ہر صورت افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔ سترہ سال کے قبضہ و تسلط کے بعد امریکا کو اپنی مکمل شکست اور پسپائی کا داغ قبول نہیں۔ اس لئے اب بلیک واٹر کی خدمات حاصل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ بلیک واٹر کرائے کے فوجیوںپر مشتمل ایک پرائیویٹ تنظیم ہے، جو 1997ء میں سابق بحری افسر اور اربوں ڈالر کے مالک ایرک پرنس نے قائم کی تھی۔ مختلف ملکوں، خاص طور پر عراق میں دہشت گرد سرگرمیوں سے بدنامی کے بعد اس کا نام پہلے تبدیل کرکے ایکس ای کیا گیا۔ لیکن اب یہ ایکمی کہلاتی ہے۔ ابتدائی طور پر اسے امریکی فوجیوں کے لئے تربیتی سہولتیں اور انفرا اسٹرکچر فراہم کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ لیکن بعد میں اسے کچھ ملکوں میں امریکا کی وحشت و دہشت قائم رکھنے اور پھیلانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ آہستہ آہستہ بلیک واٹر نے اپنا دائرئہ کار وسیع کرنا شروع کیا تو اس نے فوجی سامان کی ترسیل، بحرانوں پر قابو پانے، سفری سہولتیں فراہم کرنے، سیکورٹی کے امور سنبھالنے اور آپریشنز کی ذمے داریاں بھی قبول کرنی شروع کردیں۔ بلیک واٹر کا نیا نام کچھ بھی، یہ اب تک اپنے پرانے نام ہی سے پہچانی جاتی ہے۔ امریکا کے موجودہ انتہا پسند اور جنونی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان کے لئے اس دہشت گرد تنظیم کی خدمات حاصل کرنے پر غور افغان مسئلہ حل کرنے سے زیادہ، اسے مزید پیچیدہ اور خطرناک بنا دے گا۔ اسی لئے امریکی سیکورٹی کونسل کے ترجمان کو فی الحال یہ وضاحت کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ افغانستان میں بلیک واٹر تنظیم کو جنگ کی ذمے داری سونپنے پر کوئی غور نہیں کیا جارہا ہے۔
خوشی سے زیادہ خوف
حلف برداری کے موقع پر اور گارڈ آف آنر کی تقریب میں عمران خان کی گھبراہٹ اور زبان کی لڑکھڑاہٹ آج کل موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے۔ یہ اگر گراں بار نئی ذمہ داریوں کے تصور سے تھی تو قابل اطمینان ہے۔ تاہم اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ وہ اردو زبان پر مکمل عبور اور اپنی زبان پر پوری طرح قابو نہیں رکھتے۔ اس کی گواہ عمران خان کی گزشتہ پانچ سال کی سیاست بھی ہے۔ لفظ خاتم النبیین درست ادا نہ کرنے پر حلف لینے والے صدر ممنون حسین نے انہیں ٹوکا تو اسے دوبارہ پڑھتے ہوئے وہ مسکرائے۔ بہرحال اسے خفت آمیز مسکراہٹ قرار دے کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ان کا روز قیامت کو روز قیادت پڑھنا ظاہر کرتا ہے کہ ان کے ذہن میں برسوں سے ’’قیادت ‘‘ کا جو لفظ کنڈلی مارے بیٹھا ہے، اسے عوامی خدمت کے تمامتر دعوئوں کے باوجود آسانی سے نکالنا عمران خان کے لئے فوری طور پر شاید ممکن نہ ہو۔ دوسری طرف خاتون اول قرار پانے والی ان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی حلف برداری کے دوران لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں، کیونکہ وہ سفید رنگ کے عبایا، سفید رنگ کے جوتوں اور سفید رنگ کی انگوٹھی اور ہاتھ میں سفید تسبیح کے باعث سادگی کا نمونہ پیش کررہی تھیں۔ وہ ایک روحانی شخصیت کی شہرت رکھتی ہیں۔ اس بنا پر ان کا یہ فقرہ بہت خوش آئند ہے کہ کرسی آنی جانی چیز ہے۔ آج میں خوش نہیں، بلکہ ڈری ہوئی ہوں کہ اللہ پاک نے ہم پر بہت بڑی ذمے داری ڈال دی ہے۔ ان شاء اللہ ہم عوام کی توقعات پر پورے اتریں گے۔‘‘ عمران خان پر اپنے عرصہ اقتدار میں خوشی سے زیادہ خوف خدا کا غلبہ رہا تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک و قوم کے لئے بہت کچھ کر جائیں گے۔ ٭
Prev Post
Next Post